Express News:
2025-06-05@10:41:49 GMT

ڈالر مزید مہنگا، انٹربینک ریٹ 282 سے تجاوز کر گئے

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

کراچی:

مالی سال کے اختتامی مہینوں میں اضافی درآمدی سرگرمیوں، وزیراعظم کی جانب سے اگلے سال کو معاشی نمو کا سال قرار دینے سے معیشت میں زرمبادلہ کی طلب بڑھنے کے امکانات کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں منگل کو ایک بار پھر روپے کی نسبت ڈالر تگڑا رہا جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ دوبارہ 282روپے سے تجاوز کر گئے۔

ملک میں مزید انفلوز کی توقعات، زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے سرکاری ذخائر سے سپلائی میں بہتری آنے کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے بیشتر دورانیے کے دوران ڈالر تنزلی سے دوچار رہا جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 10پیسے کی کمی سے 281روپے 87پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی۔

 لیکن سپلائی میں بہتری آتے ہی مارکیٹ فورسز کی ڈیمانڈ آنے سے کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قدر 14پیسے کے اضافے سے 282روپے 11پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔

 اس کے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں دوسرے دن بھی ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 284روپے 40پیسے کی سطح پر مستحکم رہی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

یتیموں کی چیخیں اور مافیا کا کاروبار

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کے واقعے نے ایک بار پھر قومی اور بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بچوں کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے ایک ایسے بین الاقوامی کلب کا پردہ فاش کیا ہے جہاں 6 سے 10 سال کے مبینہ طور پر گھروں سے بھاگے ہوئے چھوٹے بچوں کو pornography کی جانب راغب کرنا اور اس مواد کو Dark web پر فروخت کیا جا رہا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچوں کا تعلق پست خاندانوں یا یتیم خانون سے ہے۔ اس کلب کو ایک جرمن شہری عرصہ دراز سے استعمال کر رہا تھا۔

ابھی تک صرف یہ ایک مثال ہے ملک میں اور بھی کئی ہوں گے جن کو معصوم بچوں کے ذریعے بدنام زمانہ مافیا چلا رہا ہے۔ ایسی بہت سی رپورٹیں ہیں کہ مریکا سے لے کر فلپائن اور افریقہ اور یورپ میں اس گھناؤنے کام کر وانے کے لیے چند ڈالر کا لالچ دے کر معصوم بچوں جن میں کثیر تعداد یتیم اور neglected بچوں کواستعمال کیا جاتا ہے۔

راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گھر میں بننے والے ایک یتیم خانے کے مالک سے جب پوچھا کہ گھر کا کرایہ بجلی گیس مینٹیننس چارجز، گارڈز اور 3دیگر نوکروں کی تنخواہیں کھانے کے اخراجات اور تعلیم کے اخراجات جو تقریباً 10لاکھ روپے ہیں۔ کیسے پورے ہوتے ہیں یتیم خانہ کے مالک نے جواب دیا سر اللہ اپنے لوگوں سے بھجوا دیتا ہے، کام سب کا چل رہا ہے۔

یہ صرف ایک مثال ہے جس میں یہ غیر رجسٹرڈ یا رجسٹرڈ یتیم خانے مافیا ان یتیموں کے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کرتے ہیں اور ان گھروں کو اپنے کاروبار کا ذریعہ بناتے ہیں کیونکہ متعلقہ سرکاری اداروں کی طرف سے مناسب جانچ پڑتال نہیں ہوتی، اور یہ یتیم خانے خطرناک حد تک مافیا کا درجہ بن گئے ہیں۔ اور اگر ان کو روکا نہ گیا تو جرائم میں کمی کے بجائے اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ ہر بچہ ایک پیار کرنے والے خاندان اور محفوظ پناہ گاہ کا مستحق ہے، لیکن دنیا بھر میں لاکھوں یتیموں کے لیے یہ بنیادی حق ایک دور کا خواب بنتا جا رہا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح ہے کہ یتیم خانے پناہ اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے ہیں، لیکن جب یہ ادارے فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

یتیموں کی حالت زار ایک تشویشناک تشویش ہے، جس میں بہت سے لوگوں کو ان اداروں میں نظر انداز، بدسلوکی اور استحصال کا سامنا ہے جس کا مقصد ان کی حفاظت کرنا ہے۔

قانون اور پالیسی

یتیم بچوں کی دیکھ بھال کو کنٹرول کرنے والے قوانین اور پالیسیاں کمزور بچوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہیں، لیکن کیا یہ کافی ہیں؟ یتیم خانوں کے ارد گرد قانونی ڈھانچہ پیچیدہ ہے، لیکن کیا یہ واقعی بچے کے بہترین مفادات کو ترجیح دیتا ہے؟
حکومتی پالیسیاں یتیموں کی زندگیاں بنا یا توڑ سکتی ہیں؛ یہ ان پالیسیوں کے اثرات کو جانچنے کا وقت ہے۔

جرائم اور غفلت

یتیم خانوں کے بارے میں تاریک سچائی یہ ہے کہ بہت سے لوگ بدسلوکی، نظر اندازی اور استحصال کی افزائش کی بنیاد ہیں۔ یتیموں کے خلاف جرائم اکثر عوام کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان مظالم پر روشنی ڈالی جائے۔ حکومتی غفلت اور بدعنوانی کے یتیموں کے لیے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں، جس سے وہ بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہو سکتے ہیں۔

حکومت کا احتساب

حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سب سے زیادہ کمزور شہریوں بشمول یتیموں کی حفاظت کریں، لیکن کیا وہ یہ فرض پورا کر رہی ہیں؟ یتیموں کی دیکھ بھال میں حکومت کا کردار کثیر جہتی ہے، لیکن کیا وہ ان بچوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کافی کام کر رہے ہیں؟ یہ وقت ہے کہ جب یتیموں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کی بات آتی ہے تو حکومتوں کو ان کے اعمال اور غیر عملیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ آج کے مضمون میں ہم اس اہم مسئلے پر بات کریں گے جس پر میڈیا میں بہت کم لوگ بحث کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک خطرناک اور خشک issue سمجھا جاتا ہے۔

اور اہل قلم اس کو highlight کرنے سے شاید ہچکھچاتےہیں۔ تاہم اس پر بات کرنے سے ان تمام مسائل سے نہ صرف آگاہی ہوتی ہے بلکہ ان مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں دنیا بھر میں یتیم بچوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ تاہم، یونیسیف کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 153 ملین بچے یتیم ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق عالمی سطح پر تقریباً 147 ملین یتیم ہیں، جن میں صحارا افریقہ اور ایشیاء، خاص طور پر جنوبی افریقہ، زیمبیا اور شام جیسے ممالک میں قابل ذکر تعداد ہے۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یونیسیف کے 2022 23۔ اعدادوشمار کے مطابق، عالمی سطح پر، تقریباً 153 ملین بچے رجسٹرڈ یتیم موجود ہیں۔

اسی طرح ایشیا کے ممالک جن میں بھارت شام، افغانستان اور جنوبی سوڈان جیسے ممالک شامل ہیں کو بھی غربت، تنازعات اور قدرتی آفات کی وجہ سے نمایاں یتیم آبادی کا سامنا ہے۔ جبکہ لاطینی امریکا اور کیریبین کو بھی یتیموں کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی تفاوت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس طرح فلسطین کو دنیا کا سب سے زیادہ یتیم بچوں کے لیے سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرقی یورپ کو بھی معاشی تفاوت اور وسائل کی کمی کے ساتھ ملتے جلتے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں یتیم بچوں کی ایک خاصی تعداد ہے، جس میں تقریباً 7.3 ملین مشرقی یورپ میں رہتے ہیں۔ یورپ میں یتیم رجسٹرڈ آماجگاہوں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے، تاہم یورپ میں رجسٹرڈ یتیم بچوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے، جس میں تقریباً 7.3 ملین مشرقی یورپ میں رہتے ہیں۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یورپ میں یتیم گھروں کی صحیح تعداد کا تعین مشکل ہے مگر ایک محتاط اندازے کے مطابق یورپ میں یتیم بچوں کی ایک کثیر تعداد کم و بیش8ملین موجود ہے جن میں زیادہ تر سماجی بہبود کے پروگرام کے تحت چلنے والے ادارے ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں مگر ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کی خبریں عام ہیں۔ چرچ کے بورڈنگ اسکولوں سے لے کر اعلیٰ محلوں تک ان یتیم بچوں کو متاثر کیا جاتا ہے۔

حیرت انگیز طورپر موجودہ معلومات کے مطابق عرب ممالک میں یتیموں کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ بہت سے عرب ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ایسے زبردست گھر بنائے ہیں، جہاں یتیموں کی دیکھ بھال ایک مخصوص تنظیم کرتی ہے۔ چونکہ ادھر میڈیا کی آزادی نہیں ان کے بارے میں کچھ کہنا 100 فیصد درست نہیں ہوگا۔ تاہم ان بچوں پر گھریلو تشدد کی دبی دبی رپورٹ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کی صورتحال

پاکستان میں یتیموں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں سمیت مختلف ذرائع کے مطابق پاکستان میں تقریباً 4.6 ملین یتیم بچے رہتے ہیں، جن کی اکثریت 17 سال سے کم ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں تقریباً 4.2 ملین یتیم مدد کے منتظر ہیں، اس ادارے کے مطابق فی الحال 27,776 بچوں کی دیکھ بھال ان کے ادارے میں کی جارہی ہے۔ جن میں آغوش الخدمت کے گھروں میں 1873 بچے رہتے ہیں، پاکستان بھر میں 22 آغوش گھر خدمات انجام دے رہے ہیں اور 8 زیر تعمیر ہیں۔ اسی طرح سوہاوہ راولپنڈی، پاکستان میں آرفن ہوم ویلج کمپلیکس کے ساتھ، عالمی سطح پر 121,104 یتیموں کی کفالت فراہم کی ہے۔

مسلم ہینڈز نامی ادارہ

پاکستان بھر میں متعدد اسکولوں کے ساتھ یتیم بچوں کو تعلیم اور مدد فراہم کرتا ہے۔ جبکہ اسلامک ریلیف پاکستان کا ادارہ پاکستان میں تقریباً 50 لاکھ یتیموں کی اطلاع ہے، جن کے سیکڑوں اپنے سسٹم میں رجسٹرڈ ہیں اور کفالت یا مدد کے منتظر ہیں۔ یہ تعداد پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت کے اہم چیلنج کو اجاگر کرتی ہے، اور تنظیمیں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور پناہ گاہ جیسی ضروری خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ان یتیم گھروں کے خلاف شکایات ہیں؟ جی ہاں پاکستان میں کچھ یتیم خانوں کے خلاف شکایات اور خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک قابل ذکر مثال 2020 کی سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست ہے، جس میں ایدھی فاؤنڈیشن سمیت فلاحی تنظیموں پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ یتیم لڑکیوں کی مناسب نگرانی کے بغیر ان کی دیکھ بھال میں بدسلوکی اور ان کی شادیاں کروا رہے ہیں۔ درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ یہ تنظیمیں صرف مردہ بچوں کو گود لینے کے لیے دیتی ہیں، زندہ بچوں کو نہیں، اور یتیموں کو آمدنی کا ذریعہ بناتی ہیں۔

 بدسلوکی اور استحصال:

بدسلوکی، جبری تبدیلی مذہب، اور پناہ گاہوں میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کے الزامات ہیں۔

موت کی بلند شرح:

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق، کراچی کے ایدھی ہومز میں 5سالوں کے دوران 1,550 یتیم بچے فوت ہوئے، جس سے ان سہولیات میں دیکھ بھال اور حالات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔

شفافیت کا فقدان:

سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کی تحقیقات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایجنسی کی رپورٹ “غیر تسلی بخش” تھی اور اس نے الزامات کی مناسب تفتیش نہیں کی۔ پاکستان میں بہت سے یتیم خانے محدود وسائل، زیادہ بھیڑ، اور ناکافی انفراسٹرکچر کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں، جو بچوں کو فراہم کی جانے والی دیکھ بھال کے معیار سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔

آپریشن میں شفافیت کا فقدان

کچھ یتیم خانے مناسب لائسنس یا رجسٹریشن کے بغیر کام کرتے ہیں، جس سے ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا اور ان کی دیکھ بھال میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ حکومت کو یتیم خانوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کے کم سے کم معیارات پر پورا اترنے کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط ضابطے اور نگرانی کا طریقہ کار قائم کرنا چاہیے۔

انفراسٹرکچر اور وسائل میں سرمایہ کاری:

انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، بہتر سہولیات فراہم کرنے اور مناسب عملہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے یتیم خانوں کے لیے مزید فنڈز مختص کیے جائیں۔

پاکستان میں بہت سے غیر رجسٹرڈ یتیم خانے ہیں اور مالکان یا دیکھ بھال کرنے والے ان کی رجسٹریشن کروانے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ ان کا کاروبار خراب ہو سکتا ہے۔ وہ ان یتیم خانوں کو اپنے کاروبار کے لیے رکھتے ہیں۔ ہر بڑے معاشرے میں ایسے بہت سے یتیم خانے دیکھے جا سکتے ہیں اور دیکھ بھال کرنے والے پرتعیش طرز زندگی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ ایک سروے کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ یتیم خانے کرائے پر قائم کیے جا رہے ہیں۔ حکومت یتیم خانوں اور ان کے گھروں کو رجسٹر کرنے میں ہچکچاہٹ کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔

سماجی کارکنوں کے مطابق متعلقہ سرکاری اداروں کی یہ مجرمانہ غفلت کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑی تباہی ہوگی اور اگر مختلف جرائم میں اضافہ ہوگا تو ہم مجرم بنا رہے ہیں اچھے مہذب شہری نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان یتیموں کی حفاظت کے لیے اس اہم مسئلے پر غور کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی معاشرے میں مہذب شہری بن سکیں۔ اور ان کی چیخوں کو مافیا کا کاروبار اور جرائم میں اضافہ نہ بننے دیں۔ بصورت دیگر یہ black web سمیت مختلف مافیا کے کاروبا ر کا ذریعہ بناتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈالر کی آمد میں اضافے کے باوجود درآمد کنندگان کو غیر ملکی کرنسی تک رسائی میں مشکلات کا سامنا
  • یتیموں کی چیخیں اور مافیا کا کاروبار
  •  پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور ترقی کیلئے تیار ہیں، چین
  • انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں تنزلی
  • پاکستانی روپے کے مقابل امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں تنزلی
  • پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار شروع ہوتے ہی نئی تاریخ رقم
  • پاکستانی معیشت کیلئے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے بڑی خوشخبری
  • تمباکو برآمدات 100 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئیں، انڈسٹری کو استحکام دیں گے، وفاقی وزیر
  • نقد ادائیگی پر پیٹرول 2 سے 3 روپے مہنگا ہونے، سامان کی خریداری پر 2 فیصد اضافی جی ایس ٹی لگنے کا امکان