لڑکیاں شہرت کی خاطر اپنی ویڈیوز خود لیک کرتی ہیں، اریکا حق
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
ٹک ٹاکر و ماڈل اریکا حق نے کہا ہے کہ متعدد لڑکیاں اپنی نامناسب ویڈیوز خود ہی لیک کرکے شہرت اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تاہم بعض لڑکیوں کے ساتھ ٖغلط بھی ہوتا ہے۔
اریکا حق نے حال ہی میں ’نکتا‘ کو انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے چند سال قبل اس وقت سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانا شروع کیے تھے جب وہ میٹرک پاس کر چکی تھیں اور گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے سے رہ گئیں۔
ان کے مطابق بعد ازاں انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، ابتدائی طور پر ’میوزک الی‘ نامی ایپ پر ویڈیوز بناتی تھیں، بعد ازاں وہی ایپ ٹک ٹاک بن گئی۔
اریکا حق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانے کی وجہ سے نہ صرف انہیں آن لائن بلکہ سامنے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، جس وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار بھی ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں عاصم اظہر کے ساتھ گانے میں ماڈلنگ کرنے کے بعد سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد آتے جاتے بھی ان پر تنقید کی جاتی رہی۔
ٹک ٹاکر کے مطابق تنقید کرنے والوں کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا اسٹار اور ماڈل عوامی ملکیت ہوتے ہیں، ان پر وہ تنقید کر سکتے ہیں، اس لیے ان کے لیے بھی نامناسب الفاظ کا استعمال کیا جاتا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں کے منفی تبصروں کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار بھی ہوئیں، گھر والوں سمیت دوستوں اور خصوصی طور پر اداکارہ صبا قمر کی مدد سے وہ ڈپریشن سے باہر نکلیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صبا قمر نے عاصم اظہر سے ان کا فون نمبر لے کر انہیں کال کی اور انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں مدد فراہم کی۔
پروگرام کے دوران ایک سوال کے جواب اریکا حق نے انکشاف کیا کہ آج کل بہت ساری ٹک ٹاکر لڑکیاں اپنی نامناسب ویڈیوز خود ہی لیک کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل تک لڑکے اور لڑکیاں جوڑی کے طور پر ویڈیوز بناتے دکھائی دیے، جس وجہ سے انہیں شہرت بھی ملی لیکن وہ سلسلہ ختم ہوا تو لڑکیاں سوشل میڈیا پر مشہور نہ رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر مزید مشہور نہ رہنے کی وجہ سے لڑکیوں نے اپنی ویڈیوز خود ہی لیک کرنا شروع کیں تاکہ وہ دوبارہ سے بحث کا موضوع بنیں، انہیں شہرت ملے۔
اریکا حق کا کہنا تھا کہ ویڈیوز کو لیک کرنے کی حکمت عملی کام بھی کرتی ہے اور لڑکیوں کو شہرت بھی ملتی ہے۔
اسی دوران انہوں نے کہا کہ پہلے وہ سوچتی تھیں کہ لڑکیوں کے ساتھ غلط ہوتا ہے لیکن اب وہ جان چکی ہیں کہ لڑکیاں خود ہی غلط ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ اپنی ویڈیوز خود لیک کرنے والی لڑکیوں کی تعداد کم ہے، زیادہ تر لڑکیوں کے ساتھ غلط ہوتا ہے۔
اریکا حق کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ ویڈیوز نہیں بنائیں، اس لیے انہیں میڈیا میں موضوع بحث رہنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
اگرچہ انہوں نے بتایا کہ لڑکیاں اپنی ویڈیوز خود لیک کرتی ہیں، تاہم انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹک ٹاکر مناہل ملک، سجل ملک، سامعہ حجاب، ارمشا رحمٰن اور علیزہ سحر کی مبینہ فحش ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے بتایا کہ اپنی ویڈیوز خود کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر پر ویڈیوز اریکا حق ٹک ٹاکر کے ساتھ لیک کر خود ہی
پڑھیں:
اپنی جانوں و اہل وعیال کو جہنم سے بچائیں
یاایہا الذین آمنوا قواانفسکم واھلیکم نارا وقودھاالناس والحجارۃ اسلام ایک پاکیزہ، پرامن مہذب معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے اور اس کیلئے مختلف مدارج میں مختلف افراد کی ذمہ داریاں لگائی ہیں ۔اولا والدین کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ اولاد کی تربیت حلال اور پاکیزہ رزق سے کریں قرآن و سنت کی روشنی میں اس تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اسے اس کے خالق و مالک کا تعارف کروائیں اسے صاحب شریعت جناب رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ سے روشناس کروائیں ،اپنی عملی زندگی کو سنت کے مطابق بناکر اسے عملی نمونہ بنائیں،دوسرے نمبر پہ اساتذہ ہیں جن کی گود میں قوم کے نونہال ایک طویل عرصے تک اور زندگی کے قیمتی ترین لمحات گزارتے ہیں،اساتذہ کرام کی ذمہ داری والدین سے بھی دو گنا ہے کہ وہ قوم کے بچوں کو معلم بن کر علوم دینی اور دنیاوی کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے علم نافع اور مضر کی پہچان کروائیں،علم سے مقصود جو کہ کارساز عالم کی پہچان معرفت اور ابدی کامرانی ہے اس سے آگاہ کریں قوم کے مستقبل کے معماروں کی اس سطح پر نظریاتی فکری اور اخلاقی تربیت کریں کہ وہ کل کو ایک مہذب باشرع اور باشعور قوم کی قیادت کرسکیں اساتذہ اپنے عمل کو نمونہ بنائیں اور یہ دینی اور عصری اداروں اور تربیت گاہوں کے اساتذہ کی یکساں ذمہ داری ہے۔ تیسرے نمبر پہ مملکتی امور کے ذمہ داران یعنی حکمران اس کے پابند ہیں کہ وہ ایک پاکیزہ پرامن مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے قوم کے افراد کو اولاد کی طرح سنبھالیں ان کو تعلیم و تربیت اور کسب معاش کے وسائل گھر کی دہلیز پہ فراہم کریں تاکہ قوم امن و سکون کے ساتھ اپنی دینی ‘اخلاقی ‘معاشی ‘معاشرتی زندگی کی تعمیر کرسکے۔ چوتھے نمبر پہ قوم کے محافظ ادارے ہیں جو مملکت کے باشندوں کے امن و سکون اور سلامتی کو دشمن سے محفوظ رکھنے کے لئے سرحدات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں تاکہ مملکت کے شہرودیہات قصبے اور محلے پرامن اور محفوظ رہیں۔ پانچویں نمبر پہ عدل و انصاف کے ادارے ہیں جو قوم کو یکساں چھوٹے بڑے امیر کبیر کے درمیان امتیاز کے بغیر عدل و انصاف فراہم کریں تاکہ کوئی کسی کا حق غصب نہ کرسکے اور حقیقی معنوں میں ایک مہذب پر امن پاکیزہ دینی معاشرہ تشکیل پاسکے جہاں کسی کو کسی سے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’آج عالم اسلامی کے قائدین و مفکرین اور اس کی جماعتوں اور حکومتوں کیلئے کرنے کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کا بیج دوبارہ بونے کی کوشش کریں، جذبہ دینی کو پھر متحرک کریں اور پہلی اسلامی دعوت کے اصول و طریق کار کے مطابق مسلمانوں کو ایمان کی دعوت دیں اور اللہ و رسول اور آخرت کے عقیدہ کی پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ تبلیغ و تلقین کریں، اس کے لئے وہ سب طریقے استعمال کریں جو اسلام کے ابتدائی داعیوں نے اختیار کئے تھے، نیز وہ تمام وسائل اور طاقتیں کام میں لائیں جو عصر جدید نے پیدا کردی ہیں‘‘۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہماری جدید تہذیب اور موجودہ فکری قیادت معاشرہ انسانی کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے افراد تیار کرنے اور انسان کی سیرت سازی میں بری طرح ناکام رہی ہے۔وہ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرسکتی ہے،وہ خلا میں سفر کرنے والے محفوظ اور سریع السیر(تیز رفتار)آلات پیدا کرسکتی ہے،وہ انسان کو چاند اور دوسرے سیاروں پر پہنچا سکتی ہے،وہ ذرائی طاقت سے بڑے بڑے کام لے سکتی ہے،وہ ملک سے غریبی دور سکتی ہے،وہ علم ہنر کو آخری نقطہ عروج تک پہنچا سکتی ہے وہ پوری کی پوری قوم اور ایک ملک کی آبادی کو خواندہ و تعلیم یافتہ بناسکتی ہے۔اس کی ان کامیابیوں اور فتوحات سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں۔لیکن وہ صالح اور صاحب یقین پیدا کرنے سے عاجز ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی ناکامی اور بدقسمتی ہے اور اسی وجہ سے صدیوں کی محنتیں ضائع اور برباد ہورہی ہیں اور ساری دنیا مایوسی اور انتشار کا شکار ہے۔
کالم کے آخر میں مولانا جلال الدین رومی کے چند اقوال کہ جنہیں حکمت کے موتی قرار دیا جائے یہ کہنا درست ہوگا ۔1۔ اپنی آواز کی بجائے دلائل بلند کرو2۔ پھول بادلوں کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اگتے ہیں3۔ سچائی کے بہت سے راستے ہیں مگر میں نے جو راستہ چنا وہ محبت کا ہے4۔ تھوڑی دیر قبرستان جا اوربولنے والوں کو خاموش دیکھ5۔ روح کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی مرض نہیں کہ تو خود کو کامل سمجھنے لگے6۔ اگر عظمت چاہتے ہو تو دل میں نفرت کے بجائے محبت کو ٹھکانہ کرائو 7۔ کسی ولی کی صحبت میں چند لمحے گزارنا سو سال کی عبادت سے افضل ہے۔8۔ تیری داڑھی تیرے بعد پیدا ہوئی اور سفید ہوگئی مگر تو ابھی تک کالے کا کالا ہی ہے۔9۔ اگر بیکار پتھر ہے تو کسی صاحب علم کے پاس جا گوہر بن جائے گا۔10۔ موت کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے، مگر زندگا کا ذائقہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔11۔ تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی صرف ہڈیاں اور گوشت ہے۔12۔ رومی اس وقت تک مولائے روم نہ بنا جب تک شمس تبریز کا وہ غلام نہ ہوگیا۔ تو بھی نیک صحبت کو لازم پکڑ لے۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزے نہ شد