بلوچستان میں خود سے غائب ہونیوالوں کا الزام ریاست پر لگا دیا جاتا ہے: سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی — فائل فوٹو
وزیرِاعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں خود سے غائب ہونے والوں کا الزام ریاست پر لگا دیا جاتا ہے۔
سرفراز بگٹی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں لوگ خود سے غائب ہوتے ہیں، لوگ خود سے غائب ہوتے ہیں بعد میں کوئی دہشتگرد تنظیم جوائن کر لیتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کامسئلہ اتنا اُجاگر ہوا کہ اب یہ بلوچستان کا ایک اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے، اب اس مسئلے کا حل اور اس کےلیے قانون سازی ضروری ہے۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ اس بل میں پہلے 3 ماہ کا اختیار وزیرِاعلیٰ کے پاس ہوگا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ منظم سازش کے تحت بلوچستان کے نوجوانوں کو دوسروں سے علیحدہ کیا جا رہا ہے، بلوچستان میں ایسے نوجوان ہیں جو خود غائب ہوتے ہیں پھر ریاست پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ریاست نے اٹھایا ہے۔
وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے فتنہ الہندوستان کے دہشتگردوں کے خلاف کارروائی پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ اس قانون سے یہ الزام ختم ہوگا، ریاستی اداروں پر الزام لگانا بہت آسان ہے۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل ایک سنگ میل ہے۔
رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صوبے میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو اور اس بل سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیا جائے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے یہ بھی کہا کہ حکومت یہ گارنٹی دے کہ دوران حراست کسی کا قتل نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلوچستان میں سرفراز بگٹی وزیر اعلی نے کہا کہ ا نہوں نے جاتا ہے
پڑھیں:
جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
انسانی حقوق کی معروف وکیل ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کرنے کے بعد اضافی دستاویزات بھی جمع کرا دی ہیں۔
ان دستاویزات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی خواتین ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہی میں تبدیلی سے متعلق نوٹیفکیشن بھی شامل ہے۔
گزشتہ روز ایمان مزاری نے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے کمرہ عدالت میں ان کے حوالے سے ایسے ریمارکس دیے جو عدالتی منصب کے شایانِ شان نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر
شکایت میں کہا گیا ہے کہ یہ طرز عمل آئینی اور عدالتی تقاضوں کے منافی ہے، لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے خلاف کارروائی کرے۔
ادھر ایمان مزاری کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس نوٹیفکیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کے تحت خواتین ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
سرکلر کے مطابق ان کی جانب سے کمیٹی کے قیام اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اقدام اس تبدیلی کا سبب بنا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس ثمن رفعت کو ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا، وجہ بھی سامنے آگئی
واضح رہے کہ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے بطور سربراہ ایک 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور وہ خود شامل تھیں۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی کا مقصد ججز کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کا جائزہ لینا تھا، تاہم نوٹیفکیشن کے اجرا کے طریقہ کار کو ان کی تبدیلی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا۔
یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل وہ آئینی فورم ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف مس کنڈکٹ یا دیگر شکایات کی سماعت کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی فورم اسلام آباد ہائیکورٹ ایمان مزاری چیف جسٹس سرفراز ڈوگر سپریم جوڈیشل کونسل