لاپتہ افراد کی آڑھ میں ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا سلسلہ روکنا ہوگا،وزیراعلیٰ بلوچستان
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جون2025ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفرازبگٹی نے کہاہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل قانون سازی ہے ،لاپتہ افراد کی آڑھ میں ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا سلسلہ روکنا ہوگا،لوگ لاپتہ ہوتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتاہے کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیم کے ساتھ ہوتاہے ،ایک منظم انداز سے بلوچستان کی یوتھ کو بدزن کیاجارہاہے،قانون سازی کے بعد لاپتہ افراد کے مسئلے کو مس یوز نہیں کیاجاسکے گا۔
ان خیالات کااظہار انہوں نے انسداددہشتگردی کے ترمیمی قانون کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں ارکان اسمبلی مولاناہدایت الرحمن اور شاہدہ رئوف نے کہاکہ انسداد دہشتگردی قانون سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیاجائے ۔(جاری ہے)
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ صوبائی اسمبلی کاایک ڈیکورم ہے بڑے عرصے سے ایک مسئلہ چل رہاہے لاپتہ افراد کو کس نے مسنگ کیاہے اور بعد میں پتہ چلتاہے کہ ان کا تعلق کالعدم تنظیم کے ساتھ ہے لاپتہ افراد کے مسئلے کو پروپیگنڈہ کے طورپر استعمال کیاجارہاہے جس کا مقصد ریاستی اداروں کو بدنام کرناہے ، اس کو روکناہوگا، ،اس مسئلے کا حل قانون سازی ہے مسئلے کو مس یوز نہ کیاجائے ، جو پکڑا جائے گا اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے ، اگر کسی کو ادارے اٹھاتے ہیں تو اسے وہ تین ماہ تک رکھنے کااختیارہوگا، تین ماہ کے بعد اسے عدالت میں پیش کرکے اس پرلگائے جانیوالے الزام سے آگاہ کیاجائے گا،ایک منظم انداز سے بلوچستان کی یوتھ کو بدزن کیاجارہاہے گرفتار ہونیوالے شخص کو ایک سینٹرمیں رکھاجائے جہاں سے والدین سے ملنے کی اجازت ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ جو ہمارے پاس ہوگا اس کاوکیل کو معلوم ہوگا، اس طرح مسنگ پرسن کاایشو ہمیشہ کے لئے کل ہورہاہے ، اس کے علاوہ اگر کوئی غائب ہوتاہے تووہ لاپتہ ہوگا،یہ قانون 6 سال کے لئے ہوگا، ریاست پرالزام لگاناآسان ہے ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لاپتہ افراد
پڑھیں:
سندھ کو ڈاکوؤں، بلوچستان کو کالعدم تنظیم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اپنے بیان میں علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ ضلع کشمور، شکارپور، جیکب آباد، گھوٹکی، کچے کے ڈاکوؤں کے، جبکہ بلوچستان کے متعدد علاقے اس وقت کالعدم تنظیموں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کشمور، شکارپور اور بلوچستان میں بدترین بدامنی، جعلی مینڈٹ کی حامل حکومت اور ریاستی ادارے قیام امن میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ ضلع کشمور میں بڑھتی ہوئی بدامنی، مسلح ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری اور ریاستی اداروں کی مسلسل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کشمور، شکارپور، جیکب آباد، گھوٹکی، کچے کے ڈاکوؤں کے، جبکہ بلوچستان کے متعدد علاقے اس وقت کالعدم تنظیموں کے رحم و کرم پر ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ضلع کشمور میں ایک ہی دن میں مسافر بسوں کو روک کر 300 سے زائد مسافروں کو دن دیہاڑے لوٹا گیا۔ اسی روز کجلی کے مقام پر ایک کار سوار نڈو شیخ کو ڈاکوؤں نے گاڑی نہ روکنے پر گولیاں مار دیں، جبکہ آج ہی نیشنل ہائی وے پر بخشاپور تھانے سے محض ایک کلومیٹر کے فاصلے پر گاڑیوں کو روک کر آرام سے لوٹتے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت، سندھ پولیس اور ریاستی اداروں نے سندھ ڈاکوؤں کے سپرد کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف ڈاکو راج ہے جسے حکومت سندھ پولیس اور ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، تو دوسری طرف عوام کو قبائلی جھگڑوں کے نام پر قاتلوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ آج چکھرانی اور بگٹی قبائل کے درمیان قبائلی جھگڑا شدت اختیار کر چکا ہے، اور بھاری اسلحے کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے یہ سب تماشا بڑے اطمینان سے دیکھ رہے ہیں۔ علامہ ڈومکی نے کہا کہ کشمور کی صورتحال اب مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ شکارپور میں روزانہ لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان کے واقعات ہو رہے ہیں، لیکن سندھ حکومت، وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ "سب اچھا ہے" کی جھوٹی رپورٹیں پیش کر رہے ہیں۔ چھ ارب روپے سالانہ رینجرز پر خرچ ہونے کے باوجود رینجرز کی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ بینچ کے معزز جج نے بھی آئی جی سندھ سے سوال کیا ہے کہ اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود سندھ میں امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر کیوں ہوتی جا رہی ہے، اور کچے کے ڈاکوؤں پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟
انہوں نے کہا کہ سندھ میں قبائلی سردار اور با اثر وڈیرے ڈاکوؤں کی سرپرستی کر رہے ہیں اسی ہفتے ضلع کشمور میں ایک نام نہاد سردار نے جرگہ کرکے پولیس کانسٹیبل پر 38 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے۔ کیونکہ پولیس کانسٹیبل نے ایک ڈاکو کو مارا تھا۔ جب با اثر سردار اور وڈیرے ڈاکوؤں کو سپورٹ کریں گے تو اس سے ڈاکوؤں کے حوصلے بلند ہوں گے اور پولیس کا مورال مزید ڈاؤن ہوگا۔ تعجب ہے کہ اس غیر قانونی غیر انسانی جرگے پر اعلیٰ عدالتیں، پولیس اور ریاستی ادارے کیوں خاموش ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جعلی مینڈیٹ والی حکومتوں نے ملک کو بحرانوں میں دھکیل دیا ہے۔ پورا ملک بدامنی، لاقانونیت، قتل و غارت، لوٹ مار اور ریاستی بے حسی کا شکار ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں ڈاکو راج کے خلاف فوری آپریشن، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے، اور ریاستی اداروں کو جوابدہ بنایا جائے۔