انکوائری کمیشن کا ممکنہ قیام،ہدف دفعہ 295 سی؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ صرف فاضل جج کاایک خیال تھا؟مذکورہ ریمارکس کواگر 21مارچ کوہونےوالی سماعت کےموقع پرفاضل جج کی جانب سے دیئے گئے اس ریمارکس کےساتھ ملا کر دیکھا جائے کہ ’’کمیشن یہ دیکھےگاکہ بلاسفیمی کے متعلق قوانین کا مستقبل میں غلط استعمال ہونے کا کوئی راستہ موجودہےیانہیں؟اگر ایساکوئی راستہ موجود ہےتو اسکےسدباب کےلئےبھی سفارشات پیش کرےگا ‘‘ تواس سے یہ بات بڑی واضح ہے انکوائری کمیشن کی تشکیل کےبعدمذکورہ کمیشن کےذریعے دفعہ 295سی کے تحت مقدمات کے اندراج کےلئے ایس او پیزبنانے کی کوشش کی جارہی ہےتاکہ اس قانون کےتحت مقدمات کے اندراج کو مشکل بناکراسے غیرموثر کردیاجائے۔ مورخہ 27مئی 2025ء کو بھی مذکورہ رٹ پٹیشن کی سماعت کےدوران اسلام آباد ہائیکورٹ کےفاضل جج نےدفعہ 295سی کےمتعلق ایسے سوالات اٹھائےکہ جن کاتعلق فاضل عدالت کےسامنے زیرسماعت رٹ پٹیشن سےہےہی نہیں۔گستاخ ملزمان کےرشتہ داروں کےوکیل نےاسپیشل برانچ پولیس پنجاب کی ثابت شدہ بےبنیاداور من گھڑت رپورٹ میں کی گئی تین سفارشات مذکورہ تاریخ سماعت پرعدالت کے سامنے پڑھیں تواس موقع پرفاضل جج نےریمارکس دیئےکہ ’’میں چوتھی سفارش بھی کرتاہوں کہ ریاست خوداتنے موثر اقدامات کرےآن لائن بلاسفیمی کو روکنے کے لئےکہ لوگوں کوخود یہ کام نہ کرناپڑے۔اب ریاست ساتھ ہی یہ بھی دیکھےکہ قانون کی ترامیم کےاس میں mens rea (ملزم کے ارادہ،نیت کو دیکھنا)شامل نہیں کیا گیا.
آگےچل کرفاضل جج نےیہ بھی ریمارکس دیئے کہ ’’ضابطہ فوجداری کی دفعہ 196 کے میں یہ بات لکھ دی گئی کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295اے کےتحت درج کسی بھی مقدمے میں ٹرائل کورٹ اسوقت تک cognizance نہیں لے گی، جب تک وفاقی یاصوبائی حکومت کی جانب سے مذکورہ دفعہ کےتحت مقدمہ درج کرنےکی اجازت نہ ہو۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 اے میں دس سال قید ہے۔اسے تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 196 میں شامل کرکے قانون سازوں نےیہ لکھ دیاکہ اس کے لئےسٹیٹ کی اجازت ضروری ہو گی۔دفعہ 295 بی اور دفعہ 295سی کہ جن میں عمر قید و سزائے موت ہے،اس کے لئے قانون سازوں نے یہ ضروری کیوں نہیں سمجھاکہ ان دفعات کے تحت مقدمہ کے اندراج کے لئے سٹیٹ کی اجازت لازمی ہو؟‘‘ ۔ اس متعلق فاضل جج نےمزید جو ریمارکس دیئے،اگران تمام کوخاکسارقلمبند کرے تواس عنوان پرکالم کی مزیددو قسطیں بن جائیں گی۔اس لئےخاکسار ان تمام ریمارکس کو نقل کرنےسے گریزاں ہے۔اب سوال یہ ہےکہ فاضل اسلام آباد ہائیکورٹ کےسامنے زیرحراست گستاخوں کےرشتہ داروں کی جانب سےدائرجو رٹ پٹیشن اس وقت زیر سماعت ہے،اس میں بلاسفیمی بالخصوص توہین رسالت کے متعلق قانون دفعہ 295سی پر نظرثانی کرنے،ان میں ترامیم کرنےیاان کے متعلق ایس او پیز بنانے کی ہدایت دینے کے متعلق کوئی استدعا شامل نہیں ہے،تو پھرکیوں فاضل جج اس طرف جارہےہیں ؟ کیوں وہ ایسےریمارکس دےرہے ہیں ؟ مذکورہ گستاخوں کےخلاف قانونی محاذپرسرگرم حلقوں کی جانب سےمذکورہ پٹیشن کی مخالفت اس بنیادپرکی جارہی تھی کہ اسپیشل برانچ اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی بےبنیاد اور من گھڑت رپورٹس کی بنیاد پرمذکورہ رٹ پٹیشن کےذریعے انکوائری کمیشن کےقیام کے تقاضےکے پس پردہ اصل مقاصد زیرحراست گستاخوں کو تحفظ فراہم کرنااور بلاسفیمی بالخصوص توہین رسالت کے متعلق قانون دفعہ 295 سی کو متنازع بناکر اسے غیرموثرکرناہے،تواسے بھی مزید تقویت فاضل جج کےمذکورہ بالاریمارکس سےاب مل رہی ہے۔
گستاخوں کے رشتہ داروں کےوکلاء ایک منظم منصوبہ بندی اورسازش کےتحت فاضل اسلام آباد ہائیکورٹ کےذریعےانکوائری کمیشن کاقیام عمل میں لاکر ان گھنائونے مقاصد کو حاصل کرنےکی کوشش کررہےہیں کہ جنہیں حاصل کرنےکی سازش اسلام دشمن قوتوں کی جانب سےایک طویل عرصے سےکی جارہی ہے۔ان سازشوں کو اکستانی عوام مذہبی قیادت کی سرپرستی میں اب تک ناکام کرتی رہی ہے۔جس کے بعدپٹیشنرز کےوکلا بڑی چالاکی کے ساتھ فاضل اسلام آبادہائیکورٹ کاکندھا استعمال کرتےہوئےو ہ گھنائونے مقاصد،ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر رہےہیں کہ جو ریلیف انہوں نےواضح طور پراپنی پٹیشن میں تونہیں مانگا مگرسماعت کےدوران وہ اس متعلق دلائل دےکرفاضل عدالت کواس طرف لیکر جارہے ہیں ۔ پٹیشنرز کےوکلا کےدلائل مکمل ہونے کےبعد جب مذکورہ گستاخوں کےخلاف مدعیان مقدمہ کے وکلابالخصوص سینئرقانون دان سینیٹر کامران مرتضی اپنےجوابی دلائل دیں گے تو وہ فاضل عدالت کو اس واردات سے یقینی طور پر آگاہ کریں گے اور مسلمانانِ پاکستان یہ امید رکھتے ہیں کہ فاضل اسلام آبادہائیکورٹ مذکورہ گھنائونے مقاصد کے حصول کےلئےاپناکندھا استعمال نہیں ہونےدے گی۔رہا فاضل جج کا یہ سوال کہ توہین رسالت کی دفعہ 295 سی میں mens rea (ملزم کے ارادہ، نیت کو دیکھنے)کو قانون سازوں نےکیوں شامل نہیں کیاجبکہ دیگر جرائم کی دفعات میں mens rea شامل ہےتو اس پر قرآن وحدیث کی روشنی میں بہت سےدلائل پیش کئےجاسکتے ہیں مگر اس وقت خاکسار فقہ کی معتمدومستند کتاب خلاص الفتاوی میں فقہ حنفی کی مشہور شخصیت امام سرخسی ؒکےنقل کئےگئےاس فتویٰ کو ہی دلیل کےطور پر پیش کرناچاہتاہےکہ جس میں فرمایا گیا’’جس شخص نے رسول اللہ ﷺ پر شتم کیا،آپ ﷺ کی توہین کی،دینی یاشخصی اعتبار سےآپﷺ پرعیب لگایا،آپ ﷺ کی صفات میں سےکسی صفت پرنکتہ چینی کی توچاہے یہ شاتم رسول مسلمان ہو یا غیر مسلم، یہودی ہویاعیسائی یاغیراہل کتاب،ذمی ہویاحربی،خواہ یہ شتم واہانت عمداًہو یاسہوا ،سنجیدگی سے ہویابطور مذاق،وہ دائمی طورپرکافرہوگا،اگروہ تویہ بھی کرلےتواسکی توبہ نہ عنداللہ قبول ہوگی اورنہ ہی عندالناس،اورشریعت مطہرہ میں تمام مجتہدین کے نزدیک اسکی سزا جماعاًقتل ہے‘‘۔یہی وجہ ہےکہ قانون سازوں نےبھی دفعہ 295 سی میں mens rea کو شامل نہیں کیا۔ فاضل جج کےدوسرے سوال کہ دفعہ 295 سی کےتحت اندراج مقدمہ کےلئےسٹیٹ کی اجازت کوقانون سازوں نےکیوں ضروری قرارنہیں دیااور کیادفعہ 295 سی کےتحت اندراج مقدمہ کے لئے کوئی ایس او پیز بن سکتے ہیں یا نہیں؟اس کا جواب زندگی رہی تو پھر کسی کالم میں سہی،مگر یہ واضح رہے کہ 295سی مسلمانانِ پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔اس دفعہ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا اسے غیرموثر کرنےکےلئےکسی بھی اقدام کو مسلمانانِ پاکستان کبھی تسلیم نہیں کریں گے،ان شا اللہ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فاضل اسلام گستاخوں کے کی جانب سے شامل نہیں رٹ پٹیشن کے متعلق کی اجازت مقدمہ کے کی دفعہ فاضل جج یہ بھی
پڑھیں:
شاداب خان کے کندھے کی انجری سے متعلق اہم پیشرفت
کراچی:شاداب خان کے کندھے کی سرجری جمعہ کو لندن میں ہوگی، آل راؤنڈر بنگلا دیش اور ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں حصہ نہیں لے سکیں گے جبکہ ایشیا کپ میں بھی شرکت مشکوک ہے کیونکہ انھیں مکمل فٹ ہونے میں 6 سے 12 ہفتے لگ سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شاداب خان کو دورہ نیوزی لینڈ اور پھر بنگلا دیش سے ہوم سیریز میں کپتان سلمان علی آغا کا نائب بنایا گیا تھا، پی ایس ایل میں ان کی زیر قیادت اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم اعزاز کا دفاع نہیں کر سکی تھی۔
بنگلا دیش سے ہوم سیریز کے تین میچز میں انہوں نے 4 وکٹیں لیں اور 2 اننگز میں 55 رنز بنائے، اب رواں ماہ گرین شرٹس کو جوابی ٹور کرنا ہے، البتہ ٹیم کو اس میں شاداب کا ساتھ حاصل نہیں ہوگا، وہ کندھے کی انجری کا شکار ہیں جس کی لندن میں جمعہ کو سرجری ہوگی، انھیں مکمل فٹ ہونے میں 6 سے 12 ہفتے لگ سکتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شاداب کو گزشتہ کچھ عرصے سے کندھے میں تکلیف کا سامنا تھا جس سے انھیں گیند تھرو کرنے میں دشواری ہوتی تھی، معاملہ اس وقت سنگین رخ اختیار کر گیا جب بنگلا دیش سے سیریز میں گگلی کرتے ہوئے بھی وہ مشکلات محسوس کرنے لگے، جب وہ تعطیلات گزارنے انگلینڈ گئے تو وہاں ایم آر آئی اسکین سے انجری کی سنگینی کا علم ہوا، ڈاکٹر نے انھیں فوری طور پر سرجری کرانے کا مشورہ دیا۔
شاداب نے خود بھی سوچا کہ ابھی وہ 26 سال کے ہیں اور آگے بڑا کیریئر موجود ہے جسے خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے، وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2026 میں ٹیم کو چیمپیئن بنوانے کا عزم رکھتے ہیں اس لیے ابھی سرجری کا فیصلہ کیا ہے، پی سی بی ان حقائق سے واقف ہے، شاداب چونکہ سینٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑی ہیں لہٰذا ان کی میڈیکل اخراجات بورڈ کی جانب سے ہی ادا کیے جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ شاداب خان اب تک 6 ٹیسٹ، 70 ون ڈے انٹرنیشنل اور 112 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے 1947 رنز بنائے جبکہ 211 وکٹیں بھی حاصل کیں۔