چین اور بیلا روس کو بالادستی کے خلاف مشترکہ طور پر مزاحمت کرنی چاہیے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
بیجنگ :چینی صدر شی جن پھنگ نے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے ملاقات کی ہے۔بدھ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بقملاقات کے دوران صدر شی نے صدر لوکاشینکو کو دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ صدر شی نے زور دے کر کہا کہ چین اور بیلاروس حقیقی دوست اور اچھے ساتھی ہیں۔ دونوں فریق ہمیشہ خلوص اور اعتماد کے ساتھ باہمی تعلقات کو آگے بڑھاتے آئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان روایتی دوستی وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوئی ہے، سیاسی اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اور تمام شعبوں میں تعاون جامع طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ چین ہمیشہ سے چین-بیلاروس تعلقات کو اسٹریٹجک بلندی اور طویل مدتی نقطہ نظر سے دیکھتا اور فروغ دیتا رہا ہے، اور بیلاروس کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے تعلقات اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون کو مستحکم اور دور رس بنانے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کو اقوام متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر کثیرالجہتی فریم ورکس میں مزید ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے، بالادستی، جبر اور دھونس کے خلاف مشترکہ طور پر مزاحمت کرنی چاہیے، اور بین الاقوامی انصاف کا دفاع کرنا چاہیے۔صدر لوکاشینکو نے کہا کہ یہ چین کا میرا 15واں دورہ ہے، اور ہر بار میں چین کی گہری دوستی اور گرمجوشی کو محسوس کرتا ہوں۔ بیلاروس چین کی طویل عرصے سے بڑے پیمانے پر حمایت اور مدد کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ بیلاروس چین پر انتہائی اعتماد کرتا ہے اور چین کے ساتھ تعلقات اور تعاون کو فعال طور پر آگے بڑھانے پر ثابت قدم رہے گا۔ بین الاقوامی معاملات میں چین کثیرالجہتی کا مضبوطی سے دفاع کرتا ہے، یکطرفہ پسندی اور پابندیوں کے دباؤ کی مخالفت کرتا ہے، جس نے دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ بیلاروس اس کی بہت تعریف کرتا ہے اور چین کے ساتھ مل کر بین الاقوامی انصاف کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا ایجنڈا
جنگ ،تنازعات اور نفرت کا ماحول کبھی دو ملکوں کے درمیان مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ بالخصوص اگر دونوں ممالک کو ایٹمی قوت کا درجہ حاصل ہو تو ان میں جنگ کا ہونا سوائے تباہی کے اور کچھ نہیںہو سکتا۔ پاک بھارت تنازعات کی طویل کہانی ہے اور جنگیں بھی ان کے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوسکیں۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر اس نقطہ کی اہمیت کو بڑھایا ہے کہ دونوں ملکوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے مسائل کا حل جنگ میں نہیں بلکہ بات چیت کے اندر تلاش کریں ۔ یہ ہی حکمت عملی دونوں ملکوں سمیت خطے اور عالمی دنیا کے مفاد میں ہے۔کیونکہ اگر پاک بھارت کشیدگی کسی جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو یہ عالمی دنیا کے لیے بھی نئے خطرات کو جنم دے گی۔اس لیے دونوں ملکوں کے لیے جنگ یا کشیدگی سے بچنا اور پرامن سیاسی حل کی مدد سے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کو ہی بالادستی ہونی چاہیے۔
دونوں ممالک کے درمیان جتنی بھی بداعتمادی ہو اس کا علاج مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں مذاکرات ہی وہ واحد آپشن ہوتا ہے جس کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین ایک دوسرے کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کرتے ہیں ۔مگر اس کے برعکس جب ہم اپنے سیاسی اختلافات کو دشمنی یا نفرت کا رنگ دیتے ہیں تو پھر مذاکرات کے مقابلے میں ڈیڈ لاک اور بداعتمادی کو برتری حاصل ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان مزید انتشار اور جنگ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی کوئی اچھا پہلو نہیں۔ یہ عمل دونوں ممالک میں امن کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے سیاسی دھچکہ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ہم پرامن راستے کو چھوڑ کر خود کو جنگ کے حالات میں دھکیل رہے ہیں۔
بھارت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پاکستان پہلے ہی حالت جنگ میں ہے اور کئی دہائیوں سے اسے اپنے ہی ملک میں سنگین سیکیورٹی اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت میں دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے یا اس کا ذمے دار ہے درست بات نہیں ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کو نظرانداز کرکے بھارت کی سیاسی ڈھٹائی آگے نہیں بڑھ سکے گی اور دنیا کو بھی احساس ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں رہنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل پر حکومت کو ذمے دار کردار ادا کرنا چاہیے۔اصل جنگ اسلحہ کی بنیاد پر یا ایک دوسرے کے ملک کو فتح کرنے یا توڑنے کی بجائے پس ماندگی، غربت، خوراک کی کمی ،پانی کی کمی، روزگار کی فراہمی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں ممالک کے لوگ اپنی حکومت سے اپنے مسائل کا حل اور بنیادی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں۔
دشمنی کسی کے حق میں نہیں ہے اور یہ عمل دونوں ملکوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ بھارت کا رویہ پاکستان کی مخالفت میں بہت سخت اور نفرت پر مبنی ہے اور اسی بنیاد پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر بات چیت کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔حالانکہ علاقائی ممالک میں موجود تمام فورمز کو فعال کرنا یا اسے سرگرم انداز میں چلانا تاکہ تمام ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں اس کی بڑی ذمے داری بھی بھارت ہی کی بنتی ہے۔ کیونکہ وہ ایک بڑا ملک ہے اور اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے علاقائی فورمز جہاں مشترکہ مسائل پر بات چیت ہوسکتی ہے عدم فعالیت کا شکار ہیں۔بھارت کو لگتا ہے کہ اگر علاقائی فورمز فعال ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اسی بنیاد پر بھارت نے اس پر بھی ڈیڈ لاک کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔
بھارت میں ہندواتہ یا مسلم دشمنی کی سیاست ہو یا پاکستان میں انتہا پسندی اس سے باہر نکلنا ہی علاقائی استحکام کے حل میں اہم ہے ۔اگر ہم انتہا پسندی کے خلاف ہیں تو اسی طرح سیاسی انتہا پسندی بھی اچھا فعل نہیں ہے اور اس کا نتیجہ سیاسی شدت پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عالمی سیاست اور اس سے جڑے فیصلہ سازوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ دونوں اہم ممالک کے درمیان بات چیت کا دروازہ کس نے بند کیا ہوا ہے اور کون بات چیت کا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت کو نئی جہتوں اور بہتر ترقی اور آپس میں بہتر تعلقات کے نئے راستے تلاش کرنے ہونگے۔دونوں ملکوں کے عوام اپنی اپنی سیاسی قیادت سے یہ ہی توقع کرتی ہے کہ ان کی ترجیحات جنگ اور کشیدگی نہیں بلکہ تعمیر کا راستہ ہونا چاہیے۔اب بھی ہمیں بھارت سے پاکستان کی مخالفت یا نریندر مودی کے عزائم کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ کسی بھی طور پرپرامن تعلقات کے حق میں نہیں ہیں۔ بھارت کی سیاست پاکستان کے تناظر میں شدت پسندی کی ہے اور اس میں یقینی طور پر کمی آنا چاہیے۔
اگر بھارت کو اس بات پر مسئلہ ہے کہ پاکستان اس کے ملک میں دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے تو تمام ثبوت کو پاکستان کے ساتھ یا عالمی فورمزپر پیش کرنا چاہیے تاکہ اس اہم مسئلہ پر بھی پیش رفت ہو سکے۔پہلگام واقعہ پر اگر بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو ان کو ثبوت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔محض الزام تراشیوں یا ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ مسائل کا حل نہیں ہے۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں اور ہمیں جنگوں اور تنازعات سے باہر نکل کر سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یہ دنیا اس وقت معیشت اور سیاسی و جمہوری نظام کی مضبوطی کی دنیا ہے جب کہ ہم جنگوں اور تنازعات میں الجھ کر اپنے وسائل بھی دشمنی میں ضایع کررہے ہیں ۔
دونوں اطراف میں موجود سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا اور اہل دانش کوترقی اور امن کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے اپنی اپنی حکومتوں پر ہی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ ریاستیں درست سمت کا تعین کریں۔
اسی طرح جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی،سماجی ،ثقافتی اور کھیل یا کلچرل سمیت معاشی تبادلوں کے امکانات کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا تب تک بہتری کا راستہ بھی نہیں نکل سکے گا۔اصل چیلنج ایک دوسرے کے بارے میں سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہے۔جو لوگ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کا راستہ روکنا ہی دونوں ملکوں کی اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ دونوں ممالک میں موجود تنازعات اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہونگے ہمیں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے خطرات کا سامنا رہے گا جو ان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔