سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں، مریم نفیس
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
اداکارہ مریم نفیس نے کہا ہے کہ معاشرے میں اب بھی خصوصی طور پر شوبز انڈسٹری میں کام کرنے والی خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا، ان کے کام کو غلط سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں۔
پروگرام کے دوران بات کرتے ہوئے مریم نفیس نے ’بے بی‘ بمپ کے ساتھ اپنے فوٹوشوٹ پر بھی بات کی اور کہا کہ انہیں ان پر کی جانے والی تنقید سمجھ نہیں آئی۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون حمل سے ہوں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ باہر نہ نکلے اور گھر تک ہی محدود رہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اداکارہ کے مطابق بچہ پیدا کرنا کوئی غلط کام نہیں، وہ بہت ہی اچھا اور معجزاتی کام ہے، پھر کیوں حمل کو چھپانے کی باتیں کی جاتی ہیں؟
مریم نفیس نے بتایا کہ ان کی جانب سے ’بے بی‘ بمپ کے فوٹوشوٹ کی تصاویر کو بہت زیادہ خواتین نے سراہا اور ان سے سوالات بھی کیے، ان سے رہنمائی بھی لی، تاہم کچھ افراد نے ان پر تنقید بھی کی۔
ایک سوال کے جواب میں مریم نفیس کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ پدرشاہانہ معاشرہ ہے، یہاں مردوں کی چلتی اور سنی جاتی ہے، مرد کسی خاتون کی نہیں سننا چاہتے۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ پڑھی لکھی خاتون کو برداشت نہیں کیا جاتا، اسی طرح جو خاتون کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے دیتی ہے تو اس کی رائے نہیں سنی جاتی بلکہ اس پر طنز کیے جاتے ہیں کہ یہ بہت رائے دیتی رہتی ہیں، ہر وقت اپنی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ان کے مطابق معاشرے کے مرد جتنے بھی روشن خیال ہوں، پھر بھی وہ رائے دینی والی خاتون کو پسند نہیں کرتے، مردانہ معاشرہ ہے، خواتین کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ خصوصی طور پر شوبز میں کام کرنے والی خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا، ان سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ وہ کس طرح کام کر رہی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کس طرح کا کام سے کیا مطلب ہے؟ شوبز میں ہر طرح کا پس منظر رکھنے والی لڑکیاں موجود ہیں جو اچھی تعلیم یافتہ بھی ہیں لیکن اس باوجود ان کے کام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
مریم نفیس نے اسی دوران کہا کہ سب سے زیادہ نمازیں ڈراما سیٹوں پر پڑھی جاتی ہیں، ہم سب لوگ مل کر کھانا کھاتے ہیں، کوئی کسی کو چھوٹا یا بڑا نہیں سمجھتا، کوئی کسی کے کام کو کمتر نہیں کہتا لیکن اس باوجود ہم پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کس طرح کام کر رہے ہیں؟
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ مریم نفیس نے جاتی ہیں طرح کا
پڑھیں:
تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان آٹھویں دہائی کے متعلق یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے انصاراللہ یمن کو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد، اس تحریک کے سیاسی دفتر کے رکن حزام الاسد نے نہایت سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کے ہاتھ بچوں اور عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، وہ جلد ہی ہمارے خطے سے باہر نکال دیے جائیں گے۔ نیتن یاہو کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے انصاراللہ کو اسرائیل کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کہا اور وعدہ کیا کہ اس خطرے کے خاتمے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا، کیا جائے گا۔
صیہونی وزیراعظم کے جواب میں انصاراللہ کے رہنما نے ان بیانات کو مجرمانہ لفاظی قرار دیا ہے۔ حزام الاسد نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ لوگ جلد ہی اس خطے سے نکال دیے جائیں گے جنہیں اعلانِ بالفور کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا، وہ غاصب جو معصوم بچوں اور عورتوں کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ چکے ہیں۔ انہوں نے یمنی عوام کی مزاحمت کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ مستضعفوں کو تمہارے ظلم و فساد سے نجات دلائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ برا انجام کس کا ہوتا ہے، حق رکھنے والے مظلوموں کا یا مجرم غاصبوں کا؟ قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے اسرائیلی دانشوروں اور مبصرین کے درمیان یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی عمر 80 سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ چونکہ اسرائیل نے اپنی ریاست کا اعلان 14 مئی 1948 کو، برطانوی قیمومیت کے خاتمے کے بعد کیا تھا، اس لحاظ سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کی زوال پذیری کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، اور 2028 سے پہلے اس کا انجام متوقع ہے۔