جوہری معاہدے کے حوالے سے ایران سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایران پر جوہری معاہدے پر سست روی اختیار کرنے کا الزام لگادیا۔ یہ بات ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے بیان کے جواب میں تھی جنہوں نے کہا کہ (جوہری معاہدے کے حوالے سے) امریکا کی تجویز ایران کے قومی مفاد کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران سے ڈیل ‘دہشتگرد تنظیموں سے تعاون اور جوہری پروگرام ترک’ کرنے سے مشروط ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
دونوں ممالک نے اپریل سے لے کر اب تک مذاکرات کے 5 دور منعقد کیے ہیں تاکہ بڑی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کو تبدیل کرنے کے لیے ایک نیا معاہدہ کیا جا سکے جسے ٹرمپ نے سنہ 2018 میں اپنی پہلی مدت کے دوران ترک کر دیا تھا لیکن اس بات پر شدید اختلافات باقی ہیں کہ آیا ایران یورینیم کی افزودگی جاری رکھ سکتا ہے یا نہیں۔
ہفتے کے روز ایران نے کہا کہ اسے عمانی ثالثوں کے ذریعے امریکی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس کی تفصیلات عوامی سطح پر ظاہر نہیں کی گئیں۔
خامنہ ای نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے نظریات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کی طرف سے پیش کی گئی تجویز 100 فیصد آزادی اور خود انحصاری کے تصورات کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اور امریکا جیسے ممالک کی طرف سے گرین لائٹ کا انتظار نہ کیا جائے۔
ایران کا یورینیم کی افزودگی ایک بڑا تنازعہ بن کر ابھرا ہے۔
ٹرمپ نے پیر کو کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ کسی بھی افزودگی کی اجازت نہیں دے گی۔
بدھ کو ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات کی جنہوں نے تجویز کیا کہ وہ ایران کے ساتھ بات چیت میں حصہ لیں گے۔
مزید پڑھیے: ایران کا امریکا کے ساتھ بالواسطہ جوہری مذاکرات کی تجویز سے اتفاق
ٹرمپ نے لکھا کہ میری رائے ہے کہ ایران اس انتہائی اہم معاملے پر اپنے فیصلے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ہمیں بہت کم وقت میں اس کا قطعی جواب درکار ہو گا۔
کم درجے کی افزودگیخامنہ ای نے کہا کہ افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کی کلید ہے اور امریکا اس معاملے پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس 100 جوہری پاور پلانٹس ہیں لیکن ان کی افزودگی نہیں ہے تو وہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہوں گے کیونکہ ایٹمی پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے منگل کو رپورٹ کیا تھا کہ امریکی تجویز میں ایک ایسا انتظام شامل ہے جو ایران کو کم سطح پر یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دے گا کیونکہ امریکا اور دیگر ممالک ایک مزید تفصیلی منصوبہ تیار کریں گے جس کا مقصد ایران کے جوہری ہتھیاروں کے راستے کو روکنا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز میں امریکا کو ایران کے لیے جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر اور علاقائی ممالک کے کنسورشیم کے زیر انتظام افزودگی کی تنصیبات کی تعمیر میں معاونت کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ایران اور امریکا کے جوہری مذاکرات ختم، اگلا دور دونوں حکومتوں کی منظوری کامنتظر
ایران نے پہلے کہا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی پر عارضی حدبندی اور علاقائی جوہری ایندھن کے کنسورشیم کے قیام پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔
لیکن اس نے زور دیا ہے کہ اس طرح کے کنسورشیم کا کسی بھی طرح سے ایران کے اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
ایران کے چیف مذاکرات کار، وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کے روز ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ جوہری ہتھیار نہ بنانے پر بات ہوسکتی ہے لیکن افزودگی نہ کرنے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔
ایران اس وقت یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے جو سنہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایران جوہری معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ علی خامنہ ایذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایران جوہری معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ علی خامنہ ای یورینیم کی افزودگی نے کہا کہ خامنہ ای ایران کے کی تجویز کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان اور امریکا کا مفاد مستحکم افغانستان میں ہے، رپورٹ
پاک امریکا تعلقات سے متعلق امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹیٹیوٹ کی پالیسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کا مفاد مستحکم افغانستان میں ہے تاکہ القاعدہ اور داعش مستقبل میں وہاں سے حملے نہ کر سکیں۔
پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کا تحفظ اور اُس کی جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنا ہمیشہ امریکا کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔
واشنگٹن کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ شدت پسند گروہ پاکستان کی جوہری مہارت یا مواد تک رسائی حاصل نہ کر لیں۔ امریکی پالیسی ساز اب اس بات پر بھی فکر مند ہیں کہ بھارت کے ساتھ کوئی تنازع بڑھتے بڑھتے ایٹمی جنگ تک نہ پہنچ جائے۔ لیکن امریکی صدور تسلیم کرتے آئے ہیں کہ واشنگٹن کو پاکستان کے جوہری تحفظ کے طریقہ کار پر اعتماد ہے۔
کئی ملکوں کے شہریوں کی امریکا داخلے پر پابندیامریکی شہریوں اور ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے اقدامات، کئی ملکوں کے شہریوں کی امریکا داخلے پر پابندی لگادی گئی۔
اِس پس منظر میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں ٹرمپ انتظامیہ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے تاکہ اسلام آباد کو جوہری مواد کے تحفظ کے اعلیٰ ترین معیارات پر قائم رکھا جا سکے اور وہ جوہری پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا کو یہ بھی چاہیے کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند گروہوں کو پاکستان جیسے ایٹمی ملک میں اثر و رسوخ حاصل کرنے سے روکے۔ اگرچہ امریکا کے لیے دہشت گردی کے بنیادی خدشات داعش اور القاعدہ کے باقیات سے متعلق ہیں، نہ کہ تحریکِ طالبان پاکستان سے، لیکن پاکستان داعش کی سرگرمیوں سے متعلق امریکا کو انٹیلی جنس فراہم کر سکتا ہے، جس کے بدلے امریکا پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف مدد فراہم کر سکتا ہے۔