Express News:
2025-06-06@11:58:07 GMT

اینڈ آف دی ڈے مذاکرات ملک کی ضرورت ہے، اطہر کاظمی

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

اسلام آباد:

تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ عمران خان صاحب سیاسی طور پر تو بڑی کلیئر بات ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے لوگوں کو استعمال کرنے کے بعد پھر ایک دفعہ اس کو کہیں گے اکڑ گئے ہیں کہ جو مرضی کر لو میں نے تم سے بات کرنی ہے اوراگلے کہہ رہے ہیں کہ نہیں بات کرنی، کرنی ہے تو پہلے معافی مانگو ، صدق دل سے مانگو اور حکومت سے جاکہ بات کرو جواب تو یہ ہے.

 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ عمران خان کو حقائق کا علم نہیں، اگر وہ 22 مہینے سے اپنے اعصاب کے ساتھ کھیل رہاہے تو پاکستان کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں، ان کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے. 

تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا کہ اینڈ آف دی ڈے مذاکرات ملک کی ضرورت ہے، دونوں طرف کی ضرورت ہے، حکومت کی بھی خواہش ہے، اسٹیبلشمنٹ کی بھی خواہش ہے اور خان صاحب کی بھی خواہش ہے، یہ ملک کی ضرورت ہے، کسی کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو یا نہ ہو تعلقات بہتر ہوں، ملک کا سیاسی ماحول بہتر ہو، میرے خیال میں یہ تو ملک کی ضرورت ہے، باقی جو مارنگ کا ذکر ہے، اگر مارنگ کو کسی عدالت سے سزا ہوئی ہے، اگر مارنگ کی ایسی کوئی فنڈنگ ہے، مارنگ کے اوپرکوئی دہشتگردی کا الزام ہے تو میرے خیال میں پاکستان میں عدالتیں موجود ہیں، ان پر مقدمہ دائر کیاجائے.

سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ 1373 ریزولوشن کا نام ہے جو سیکیورٹی کونسل نے اڈاپٹ کی تھی، 9/11 کے فوراً بعد جب امریکا پہ 11ستمبر 2001 کو اٹیک ہوا تھا اس کے فوری بعد سیکیورٹی کونسل نے یہ ریزولوشن اڈاپٹ کی تھی کہ دنیا کے تمام ممالک اب ٹیررازم کے خلاف جنگ میں تعاون کریں اور پھر اس کے تحت 1373ایک کمیٹی بنی جو وہاں بیٹھ کر مانیٹر کرتی ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں ٹیررازم کے خلاف کیسی جنگ جاری ہے. 

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ عسکری میدان کے بعد سفارتی میدان میں بھی پاکستان کی پرفارمنس اچھی لگ رہی ہے، پہلے تو وزیراعظم نے جو دورے کیے وہ بہت ہی ضروری تھے، یاد رہے کہ ہندوستان کے ساتھ ایک ملک نہیں کھڑا ہوا، پاکستان کے ساتھ نام لیکر ملک کھڑے ہوئے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملک کی ضرورت ہے کے ساتھ

پڑھیں:

صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

ایک تجزیہ کار نے درست کہا ہے کہ پی ٹی آئی میں ہرکوئی لیڈر اور ان کا اپنا اپنا بیانیہ ہے جو بھی بانی سے مل کر آتا ہے وہ اپنا ہی بیان دیتا ہے۔ بانی کی ہمشیرہ نے جو بیان دیا تھا تجزیہ کاروں کے نزدیک وہ ایک بہن کا ذاتی بیان تھا جس کے بعد ایک وضاحت سامنے آگئی ہے کہ وہ بانی یا پارٹی کا نہیں علیمہ خان کا ذاتی بیان تھا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بانی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے ایسے مذاکرات کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ ’’کچھ لو،کچھ دو‘‘ پر لوگوں نے مس گائیڈ کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر نے اپنی چھوڑی ہے کہ ہمارے کسی سے مذاکرات نہیں چل رہے جب کہ بعض دیگر رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے کہ مذاکرات چلتے رہتے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ ایسے مذاکرات اندرون خانہ چلتے رہتے ہیں جو کھلے عام نہیں ہوتے یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے ساتھ جو مذاکرات کیے تھے وہ خفیہ نہیں اعلانیہ تھے جن سے پی ٹی آئی کے بانی نے چلنے نہیں دیا تھا اور ختم کرا دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں حکومت بے اختیار ہے جس سے مذاکرات کامیاب ہو ہی نہیں سکتے، اسی لیے وہ صرف بالاتروں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر تیار ہوں کیونکہ وہی اس سلسلے میں بااختیار ہیں۔

بانی جن کو با اختیار کہہ کر جن کے لیے وہ اپنے دروازے کھلے رکھ کر مذاکرات کے لیے تیار بیٹھے ہیں وہ خفیہ ملاقاتوں پر یقین ہی نہیں رکھتے اور ملاقات کے لیے بانی کی طرف سے دی گئی درخواست تک نہیں پڑھتے اور حکومت کو بھیج کر پیغام دے دیتے ہیں کہ ہم نے بانی سے کوئی مذاکرات نہیں کرنے اس لیے ہماری بجائے حکومت سے مذاکرات کریں۔

اسٹیبلشمنٹ کے صاف جواب سے صاف ظاہر ہے کہ بانی کو صرف حکومت سے رابطہ کرنا چاہیے ہمیں مذاکرات کرنے کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو الگ الگ بیان دیتے ہیں، کسی کو کچھ کہتے ہیں اور کسی کو کہتے ہیں کہ میں پاکستان کے لیے بالاتروں سے مذاکرات پر تیار ہوں جیسے ان سے بالاتروں کی طرف سے مذاکرات کے لیے کوئی درخواست کی گئی ہو، جس پر بانی آمادہ ہو کر اپنا دروازہ کھولے بیٹھے ہیں جب کہ وہ آنا ہی نہیں چاہتے۔ کوئی کہتا ہے کہ بانی پاکستان کے لیے کچھ لو کچھ دو پر تیار ہیں جس کی بیرسٹر گوہر تردید کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سزا یافتہ بانی جیل میں قید اور ان کا دروازہ باہر سے بند ہے جسے وہ خود کھول نہیں سکتے اور کہتے ہیں کہ بالاتروں کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے جو درحقیقت کھلا نہیں، بند ہے اور بند دروازہ کھلوانے کے لیے بار بار ملاقات کی درخواستیں کی جا رہی ہیں جو ملنا ہی نہیں چاہ رہے تو ان سے ملاقات کے لیے کیوں کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے میرا دروازہ کھلا ہے اور پاکستان کے لیے میں ان سے ملنے کو تیار ہوں مگر دوسری طرف سے کوئی جواب ہی نہیں آ رہا۔

ممکن ہے کہ دوسری طرف سے بانی سے ملنے کی کوئی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی جا رہی کہ بانی پی ٹی آئی نہ حکومت میں ہے نہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہے بلکہ وہ سزا یافتہ ہے جس کی رہائی کے لیے دروازہ کھولنے کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے اور بانی ضمانت پر رہائی کے لیے رجوع بھی کر چکے ہیں اس لیے انھیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔

علیمہ خان کے بیانات پر خود پی ٹی آئی میں بھی تحفظات ہیں اور پارٹی رہنما ان کے بعض بیانات کی تردید کرتے ہیں اور تجزیہ کار بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے بیانات پارٹی پالیسی نہیں بہن کے جذبات ہیں ۔ ویسے سینیٹر علی ظفر اور علیمہ خان کے بیانات میں کوئی بھی فرق نہیں ہے اور دونوں نے کچھ لو کچھ دو کے بیانات دیے ہیں۔ علیمہ خان نے یہ بھی پوچھ لیا ہے کہ وہ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟بانی پاکستان کے لیے نہیں اپنی رہائی کے لیے بالاتروں کو کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ ملنا چاہیں مگر وہ بانی سے ملیں کیوں اور نہ انھیں کوئی ضرورت یا سیاسی مذاکرات کی خواہش ہے ان کی ضروریات صرف حکومت ہی پوری کر سکتی ہے۔

بانی کا بھی یہ حال ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، وہ اپنی باعزت رہائی بھی چاہتے ہیں اور منت اور ترلے بھی ہو رہے ہیں۔ بانی کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں لینے کے لیے جیل سے رہائی ہے۔ لو اور دو کے دلائے جانے والے بیانات این آر او ہی تو ہیں ، اب ان کے پاس صرف بالاتر رہ گئے ہیں جنھیں وہ بلاتے ہیں جو آئیں گے نہیں، اس لیے بانی کو صرف عدالتی رہائی کا ہی انتظار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس اسرائیل کے ساتھ غزہ جنگ بندی کیلئے نئے مذاکرات پر آمادہ
  • پوٹن کی ایران، امریکہ جوہری مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش
  • حماس کی اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کیلئے نئے مذاکرات پر آمادگی
  • ہم اتنے بھی غلط نہیں تھے
  • پیوٹن ایرانی جوہری مذاکرات میں مدد کو تیار ہیں، کرملن پیلس کا اعلان
  • بلوچستان میں کسی بڑے فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں: سرفراز بگٹی
  • بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن بے تاب بھی نہیں، پاکستان
  • صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
  • سی بی اے یونین کے ساتھ مذاکرات کر کے فی الفورتمام مطالبات حل کیے جائیں،چوہدری محمد یسین