واشنگٹن:

چیئرمین پی پی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی کانگریس اراکین سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان کے اعلیٰ سطح کے  پارلیمانی وفد نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں  مصروف ترین دن گزارا، جہاں چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے متعدد امریکی کانگریس اراکین سے ملاقاتیں کی ہیں۔

وفد کی جانب سے حالیہ پاک بھارت کشیدگی، بھارتی جارحیت ،  امریکی قیادت کی  کاوشوں سے عمل میں آنے والی جنگ بندی، بھارتی قیادت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور اس  کے علاقائی امن پر اثرات ، بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور مسئلہ کشمیر سمیت مختلف موضوعات پر اراکین کانگریس کو پاکستان کے اصولی موقف پر بریفنگ دی۔

‎پاکستانی وفد نے علاقائی امن، انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور حالیہ بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا۔

ملاقاتوں میں بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کی جانے والی جارحیت، نہتے عوام کو نشانہ بنائے جانے کا عمل اور سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل  کیے جانے کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی  ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے   امریکی  قیادت  کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن یک طرفہ اقدامات اور جارحیت کے بجائے  ڈائیلاگ، ڈپلومیسی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے جڑا ہے۔

پاکستانی وفد نے امریکی سینیٹر ایلیسا سلوٹکن، کانگریس خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیا  رکن کانگریس سڈنی کملاگرڈو، ممبر کمیٹی برائے خارجہ امور رکن کانگریس ٹام کین جونئیر، کانگریس مین جان مولینار سے  علیحدہ علیحدہ  ملاقات بھی کیں۔

علاوہ ازیں وفد نے سینیٹر جم بینکس، سینیٹر وان ہولن  اور سینیٹر کوری بوکر سے بھی علیحدہ علیحدہ   ملاقاتیں کیں اور علاقائی امن، انسداد دہشت گردی کی کوششوں سمیت حالیہ بھارتی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کے اصولی مؤقف کا اعادہ  کیا اور جموں و کشمیر تنازع کے منصفانہ حل اور مذاکرات پر زور دیا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیے جانے کے بھارتی اقدامات کا نوٹس لے۔ انہوں نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اسے تعمیری روابط اور عوام کی بہتری کے لیے ایک پل قرار دیا۔

دریں اثنا ‎  امریکی کانگریس اراکین  نے پاکستان کے اقتصادی استحکام اور امن کے اہداف کے لیے حمایت کا اعادہ کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی کانگریس اراکین پاکستانی وفد کے حوالے سے پاکستان کے بلاول بھٹو کی جانب سے کی قیادت وفد نے

پڑھیں:

اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔

قرارداد میں کیا ہے؟

اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔

(جاری ہے)

قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟

جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔

"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔

"

ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"

انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔

انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔

کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہو

تنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔

ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقید

اس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔

اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"

بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔

انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"

انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • دورۂ استنبول؛ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کی عالمی دفاعی نمائش میں شرکت، اہم ملاقاتیں
  • کراچی، شاہراہِ بھٹو کے قیوم آباد سے کراچی بندرگاہ تک نئے کوریڈور کی تعمیر کا اعلان
  • اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
  • ناکام آپریشن سندور کا دعویٰ ایک بار پھر جھوٹا ثابت، امریکی صدر کے ہاتھوں بھارت کو سبکی کا سامنا
  • اقوام متحدہ میں پاکستان نے بھارتی جارحیت، کشمیر پر قبضے اور آبی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کردیا
  • سلامتی کونسل میں کھلا مباحثہ، پاکستانی سفیر نے بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا
  • کشمیر پر ثالثی سے متعلق پاکستانی رہنما سے جمعہ کو ملاقات ہوگی، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
  • بہار میں ووٹر لسٹ سے بڑے پیمانے پر نام حذف کیا جانا جمہوریت کا قتل ہے، پرینکا گاندھی
  • اقوام متحدہ میں اسحاق ڈار کی قیادت میں عالمی تنازعات سے متعلق پرامن حل کی قرارداد منظور
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر سے اہم ملاقاتیں، بھارتی جارحیت پر تشویش کا اظہار