نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحاتِ حج
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
گفٹ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کا شکرگزار ہوں کہ ’’حجِ بیت اللہ‘‘ کے حوالہ سے منعقدہ اس سیمینار میں اربابِ علم و دانش، اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے سامنے اس اہم ترین دینی فریضہ کے بارے میں کچھ گذارشات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، اللہ پاک جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
’’حجِ بیت اللہ‘‘ اسلام کی بنیادی عبادات و فرائض کا حصہ ہے اور دنیا بھر سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ذی الحجہ کے دوران حرمین شریفین میں حاضری دے کر حج ادا کرتے ہیں، عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مقدس پر حاضری سے مشرف ہوتے ہیں۔ حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں بیت اللہ شریف کی تعمیر کے بعد سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی حج اور عمرہ دونوں ادا کیے جاتے تھے اور مختلف اطراف و اکناف سے لوگ حاضر ہو کر یہ سعادت حاصل کرتے تھے مگر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے نظام میں بہت سی اصلاحات فرمائی ہیں جس کے بعد دورِ جاہلیت کے حج و عمرہ اور اسلامی ماحول کے حج و عمرہ میں بہت سے فرق نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور آج انہی میں سے چند نمایاں ترین تبدیلیوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے مناسک اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی تو یہ کی کہ حج کے سفر میں عمرہ کی اجازت دے دی جو اس سے قبل نہیں ہوتی تھی۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ آنے والے صرف حج کرتے تھے، عمرہ نہیں کر سکتے تھے، عمرہ کے لیے انہیں الگ موسم میں مستقل سفر کرنا پڑتا تھا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ’’حجۃ الوداع‘‘ کے لیے تشریف لائے تو اعلان فرمایا کہ جو لوگ ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے وہ عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں اور حج کے موقع پر اس کے لیے الگ احرام باندھیں۔ یہ سن کر لوگوں کو تعجب ہوا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ بعض حضرات نے پوچھ لیا کہ یا رسول اللہ! یہ سہولت صرف اس سال کے لیے ہے یا آئندہ کے لیے بھی ہو گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ کے لیے عمرہ کو حج کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اور صحابہ کرامؓ نے بھی حج کے ساتھ عمرہ کیا جو اب تک مسلسل جاری ہے بلکہ اکیلے حج سے عمرہ کے ساتھ ادا کیا جانے والا حج ثواب اور فضیلت میں زیادہ شمار ہوتا ہے۔
جاہلیت کے زمانے میں لوگ حج کے ایام میں خرید و فروخت نہیں کرتے تھے اور اسے دنیاداری سمجھ کر دینی عبادت سے الگ رکھا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کی نفی فرما دی اور کہا ’’لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم‘‘ کوئی حرج کی بات نہیں حج کے ایام میں تجارت کر سکتے ہو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین اور دنیا کو الگ الگ سمجھنے کا جو ماحول قائم ہو گیا تھا وہ درست نہیں ہے بلکہ دین اور دنیا اکٹھے ہیں اور دونوں انسان کی ضروریات میں سے ہیں البتہ ان میں توازن ضروری ہے۔ اسی طرح حج کے حوالے سے ہی یہ دعا سکھائی کہ ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ‘‘ اے اللہ ہمیں دنیا اور دین دونوں کی اچھائیاں نصیب فرما۔
جاہلیت کے دور میں حج کے دوران بیت اللہ کا طواف تو سارے کرتے تھے مگر صفا اور مروہ کی سعی صرف قریش اور ان کے دوست قبائل کیا کرتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ قریشی لوگ اپنی دادی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد میں ایسا کرتے ہیں، اس لیے دوسرے لوگ اس میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ مگر قرآن کریم نے اسے تبدیل کر دیا اور فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی صرف حضرت ہاجرہؓ کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ خود بھی ’’شعائر اللہ‘‘ میں سے ہیں، اس لیے حج اور عمرہ دونوں میں بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا و مروہ کی سعی بھی مناسک میں شامل ہے۔
جاہلیت کے دور میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ’’عرفات‘‘ کا وقوف حج کے لیے آنے والے باقی سارے لوگ کرتے تھے مگر قریشی اس کے لیے عرفات نہیں جاتے تھے اور حرم کی حدود میں ہی رہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ’’نحن حمس‘‘ جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم وی آئی پی ہیں اس لیے ہمارا عرفات جانا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس رسم کو یہ کہہ کر توڑا کہ ’’ثم افیضوا من حیث افاض الناس‘‘ تم بھی حج کے لیے وہیں جاؤ جہاں باقی لوگ جاتے ہیں۔ اس لیے کہ حج بیت اللہ بلکہ کسی بھی عبادت میں کوئی ’’پروٹوکول‘‘ نہیں ہے اور خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں۔
ایک اور جاہلی رسم کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ بہت سے مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف بے لباس ہو کر عریانی میں کرتے تھے اور اسے نیچر اور فطرت قرار دیتے تھے کہ ہم دنیا میں ننگے آئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں نیچرل حالت میں یعنی ننگے حاضر ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرما دی اور اعلان کر دیا کہ کوئی مرد یا عورت بیت اللہ کے طواف کے لیے ننگے نہیں آئیں گے، مرد کے لیے احرام کی صورت میں مخصوص لباس ضروری قرار دیا اور عورت سے کہا کہ وہ معمول کے لباس میں حج کے مناسک ادا کرے گی۔
قرآن کریم نے حج کے نظام میں سب سے بڑی تبدیلی یہ کی کہ حج، عمرہ اور حرمِ مکہ کی حاضری کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ اور حرمِ مکہ کی تولیت سے مشرکین کو الگ کر کے ان کے لیے حرم میں آنے کو ممنوع قرار دے دیا، حالانکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے ابراہیمی کہلاتے تھے، مگر حج اور عمرہ کو صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص قرار دے کر کسی بھی غیر مسلم کی اس میں شرکت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی حج کے طریق کار اور مناسب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیلیاں فرمائیں اور آج تک اسی طریق کار کے مطابق حج اور عمرہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اللہ پاک جانے والوں کا حج اور عمرے قبول فرمائیں اور ہر مسلمان کو اس کی توفیق اور قبولیت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حج اور عمرہ جاہلیت کے بیت اللہ کرتے تھے کے لیے ا عمرہ کی کے ساتھ تھے اور کر دیا بھی حج اس لیے
پڑھیں:
یاد ہے قربانی کا دنبہ، مگر بھول گئے ہم وہ مکالمہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی اصل روح محض جانور کے ذبح کرنے کے عمل میں نہیں بلکہ روحانی اطاعت، اخلاقی جرات، اور اللہ کی رضا میں مکمل سرتسلیم خم ہونے میں پوشیدہ ہے۔ اصل فلسفہ اُس مکالمے میں ہے جو ایک باپ اور بیٹے کے درمیان ہوا۔ قرآن مجید سورہ الصافات میں اس مکالمے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے:’’پھر جب وہ (اسماعیل) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہو گیا، تو (ابراہیم نے) کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا: اے ابا جان! آپ وہی کیجیے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔‘‘ (سورۃ الصافات 102:37)یہ مکالمہ محض ماضی کی ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک لازوال سبق ہے۔ اطاعت، ضبطِ نفس اور ایمان کی فتح کی ایک روشن مثال۔ دنبہ، جو اللہ کی طرف سے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ بطور فدیہ عطا کیا گیا، ایک علامت بن گیا۔ مگر ہم اکثر اصل سبق، اصل روح کو بھول جاتے ہیں یعنی وہ مکالمہ، وہ روحانی سرتسلیم۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے سب سے عزیز کو اللہ کے حکم پر قربان کر دینا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اس پر آمادگی کے ساتھ راضی ہو جانا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل قربانی اپنی خواہشات، اپنی انا، اور اپنی پسند کی اطاعت کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا ہے۔ ہم نے دنبے کو یاد رکھا، مگر مکالمہ کو بھلا دیا، جو کہ اصل روحِ قربانی تھا۔آج جب کہ امتِ مسلمہ اور بالخصوص پاکستان، سیاسی عدم استحکام، معاشی زوال، اخلاقی انحطاط اور سماجی ٹوٹ پھوٹ جیسے بحرانوں کا شکار ہے، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں قربانی کے حقیقی فلسفے کو زندہ کریں۔ ہمارا معاشرہ بدعنوانی، ناانصافی، عدم برداشت اور لالچ سے بوجھل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کا پیغام نہیں دیتی، بلکہ انا، ناجائز خواہشات، اور طاقت و دولت کی ہوس کو ذبح کرنے کا درس دیتی ہے۔قرآن مجید فرماتا ہے: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ (سورۃ الرعد 11:13)یہ آیت ہمارے موجودہ حالات سے براہِ راست مطابقت رکھتی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو پانا ہے تو اندرونی پاکیزگی ضروری ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ذاتی خواہشات کو اجتماعی فلاح پر قربان کرنا ہوگا۔ ہمارے شہریوں کو بے ایمانی، رشوت، ٹیکس چوری، اور قومی وسائل کے غلط استعمال کو ترک کرنا ہوگا۔ ہر فرد کو سوچنا ہوگا کہ وہ اجتماعی بہتری کے لیے کیا قربانی دے سکتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ انہیں تکلیف دی جائے، بلکہ یہ ان کی مکمل اطاعت اور روحانی پختگی کا امتحان تھا۔ آج پاکستان بھی آزمائش کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا — ہم اللہ کی رضا کے لیے، اور اپنی قوم کی درست سمت میں بحالی کے لیے کیا قربان کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم فرقہ واریت کو اتحاد کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندی کو امن کے لیے ترک کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ناجائز کمائی کو عدل پر مبنی معیشت کے لیے چھوڑ سکتے ہیں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا:یقیناً جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ وہ ٹکڑا دل ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)دل کی اصلاح نہایت اہم ہے۔ لالچ، حسد، تکبر جیسے روحانی امراض کو ختم کرنا ہوگا۔ ہماری سیاست کو ریاکاری اور خودغرضی سے پاک کرنا ہوگا۔ ہماری معیشت کو سود اور استحصال سے نجات دینی ہوگی۔ اور ہماری تعلیم میں ایسی اقدار شامل کرنا ہوں گی جو ذمہ داری، سچائی اور خدمتِ خلق سکھائیں۔اگر ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اندھی اطاعت نہیں تھی۔ یہ خواب، مشورہ، فہم، اور پھر مکمل اطاعت پر مبنی تھا۔ اسی طرح پاکستان کو بھی کوئی قدم بغیر ویژن، مشاورت، اور اخلاقی بنیاد کے نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہماری قربانیاں با مقصد ہونی چاہییں — ایک اعلیٰ مقصد کے لیے، جو اسلامی اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق ہو۔قرآن کہتا ہے:نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ اللہ تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج 37:22)یہ آیت اس تصور کو ختم کر دیتی ہے کہ قربانی صرف جانور کے ذبح کا نام ہے۔ اصل قربانی تقویٰ ،اللہ کا خوف اور شعور ہے۔ پاکستان کو اس تقویٰ کی اشد ضرورت ہے۔ سرکاری افسران دیانتداری سے کام لیں، تاجر انصاف کے اصولوں کو اپنائیں، علما اخلاص اور اتحاد سے رہنمائی کریں، میڈیا سچ پر مبنی رپورٹنگ کرے، اور نوجوان عارضی خواہشات کو ترک کر کے ملک کی تعمیر میں کردار ادا کریں۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کا مکالمہ ہمیں باپ بیٹے کے درمیان اعتماد، تربیت اور روحانی ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے۔ آج جب خاندانی ڈھانچے کمزور ہو رہے ہیں، تو یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل طاقت ایمان، بات چیت اور باہمی ذمہ داری میں ہے۔ پاکستانی معاشرے کو خاندان کے ادارے کو پھر سے ایمان، مکالمے، اور ذمہ داری پر قائم کرنا ہوگا۔ہم کسی بھی شعبے میں ہوں، ہمیں قربانی کا سبق دل سے اپنانا ہوگا۔ بغیر قربانی ہم بکھرے رہیں گے، قربانی کے ساتھ ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ اصل قربانی اپنی کم تر خواہشات کو اعلیٰ مقاصد کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس صلاحیت یا وسائل نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم آرام، تعیش، شارٹ کٹس، اور خودغرضی چھوڑنے کو تیار نہیں۔اس عید پر، جب امت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو یاد کرتی ہے، تو پاکستان کو مثال بن کر آگے آنا چاہیے۔ آئیے اُس مکالمے کی روح کو زندہ کریں، سچائی، ایمان اور عزم کے لمحے کو۔ قربانی کے پیغام کو اپنے گھروں، دفاتر، بازاروں اور حکومت تک لے جائیں۔آئیے ہم صرف دنبے کو نہ یاد رکھیں، بلکہ اُس جذبے کو بھی جس نے قربانی کو ممکن بنایا۔ اس برس ہماری قربانیاں باطن کی بھی ہوں، تکبر کے بجائے عاجزی، دھوکے کے بجائے سچائی، تفرقے کے بجائے اتحاد، مایوسی کے بجائے امید۔تب ہی ہم اللہ کی مدد کے مستحق بنیں گے، سماجی ہم آہنگی اور قومی تجدید ممکن ہوگی۔ تب ہی ہماری قربانی اللہ کی نظر میں معنی رکھے گی اور اقوام کی تاریخ میں مقام پائے گی۔ تب ہی پاکستان وہ ملک بن سکے گا جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی ایک ایسی قوم جو محض خون سے نہیں، بلکہ ایمان، قربانی اور صداقت سے تعمیر ہوئی ہو۔