پیوٹن کا ٹرمپ کو دوٹوک پیغام: روس پر یوکرینی حملوں کا جواب دیا جائے گا
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
ماسکو / واشنگٹن: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران واضح کیا ہے کہ یوکرین کی جانب سے روسی نیوکلیئر بمبار طیاروں اور پل پر حملوں کا جواب دینا ضروری ہوگا۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے، اور یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سب سے خونریز تنازعہ بن چکا ہے۔
پیوٹن کا کہنا تھا کہ یوکرین امن نہیں چاہتا اور اس کی قیادت ایک "دہشت گرد تنظیم" بن چکی ہے، جسے بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے پل پر حملے کو عام شہریوں کے خلاف قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پیوٹن سے ایک گھنٹہ 15 منٹ گفتگو ہوئی جس میں یوکرین حملے، ایران اور دیگر اہم معاملات پر بات ہوئی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ روس یوکرینی حملوں کے بعد جواب دینے پر غور کر رہا ہے۔
روس نے حالیہ دنوں میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں۔ پیوٹن نے براہ راست بمبار طیاروں پر حملے کا ذکر تو نہیں کیا، لیکن روسی حکام نے مغرب پر بھی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق انہوں نے پیوٹن سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کی اور دونوں اس بات پر متفق تھے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیے جا سکتے۔
روس اور امریکا کے پاس دنیا کے 88 فیصد نیوکلیئر ہتھیار ہیں، اور ان کی "نیوکلیئر ٹرائیڈ" (بمبار طیارے، زمینی میزائل، آبدوز میزائل) پر کوئی بھی حملہ سنگین تصور کیا جاتا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل کی جانب سے جنوبی بیروت پر وسیع حملے
تجزیہ کار رامی خوری نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ حملہ کوئی حیران کن نہیں تھا کیونکہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں خطے میں لوگوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ان حملوں کو اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کے نمونے کے طور پر بیان کیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل نے جمعرات، 5 جون 2025 کو جنوبی بیروت کے علاقوں، خاص طور پر ضاحیہ کے نواحی علاقے پر وسیع فضائی حملے کیے۔ فارس نیوز کے مطابق، گزشتہ نومبر میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قائم ہونے کے بعد لبنانی دارالحکومت پر اسرائیل کا یہ چوتھا حملہ ہے، اور لبنانی حکام کے مطابق، جنگ بندی کے آغاز کے بعد یہ سب سے بڑا حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے حملے سے قبل جنوبی بیروت کے علاقوں حدث، حاره حریک اور برج البراجنه کے لیے جبری انخلاء کا حکم دیا۔ الجزیرہ کے مطابق چار گنجان آباد محلوں میں آٹھ عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا اور حملوں کی شدت نے ان علاقوں کے تمام مکینوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔
مضافاتی علاقے میں گہرے دھوئیں اور شہریوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والی شدید ٹریفک کی تصاویر ان حملوں کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ تجزیہ کار رامی خوری نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ حملہ کوئی حیران کن نہیں تھا کیونکہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں خطے میں لوگوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے ان حملوں کو اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کے نمونے کے طور پر بیان کیا۔
اسی وقت، جمعرات کی شام اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں صیدا شہر کے مشرق میں واقع عین قانا گاؤں کے رہائشیوں کو خبردار کیا کہ وہ دو مخصوص عمارتوں سے دور رہیں، جو ممکنہ طور پر ان علاقوں پر آئندہ حملوں کا اشارہ ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملے حزب اللہ کے ٹھکانوں کے خلاف تھے، لیکن ان کارروائیوں کے نتیجے میں عام شہریوں کو شدید نقصان اور وسیع پیمانے پر بے گھری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔