Islam Times:
2025-07-23@09:30:01 GMT

امریکی صدر نے ہارورڈ اور کولمبیا پر حملے تیز کر دیے

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

امریکی صدر نے ہارورڈ اور کولمبیا پر حملے تیز کر دیے

امریکی محکمہ تعلیم کے بیان کے مطابق اس کی شہری حقوق کی شاخ نے کولمبیا کی منظوری دینے والے ادارے سے اس مبینہ خلاف ورزی پر رابطہ کیا ہے۔ اگر کولمبیا کی منظوری واپس لی گئی تو یونیورسٹی تمام وفاقی فنڈنگ سے محروم ہو جائے گی، جو اس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز امریکا کی اعلیٰ جامعات کے خلاف اپنی مہم تیز کر دی، ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیمی اسناد کی منظوری ختم کرنے کی دھمکی دی گئی۔ ٹرمپ ان جامعات کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی طلبہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، یہ ادارے اپنے کیمپسز پر یہود مخالف رجحانات کو نظر انداز کرتے ہیں اور لبرل نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ 

بدھ کی رات وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ ہارورڈ میں کورس شروع کرنے کے لیے بین الاقوامی طلبہ کے داخلے کو 6 ماہ کے لیے معطل اور محدود کر دیا گیا ہے اور پہلے سے داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزے بھی منسوخ کیے جاسکتے ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہارورڈ کے طرز عمل نے اسے غیر ملکی طلبہ اور محققین کے لیے ایک ناموزوں مقام بنا دیا ہے۔ آسٹریا کے ایک طالبعلم کارل مولڈن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں کانپ رہا ہوں، یہ ناقابلِ یقین ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ایگزیکٹو پاور کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں تاکہ ہارورڈ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں۔ ہارورڈ کے ایک اور بین الاقوامی طالبعلم نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ میرے خدا! یہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہارورڈ کے غیر ملکی طلبہ کے اندراج کا حق ختم کرنے کی کوششیں ایک جج کی جانب سے روک دی گئی تھیں۔

حکومت پہلے ہی ہارورڈ کو ملنے والے تقریباً 3.

2 ارب ڈالر کے وفاقی گرانٹس اور معاہدے ختم کر چکی ہے اور مستقبل میں کسی بھی وفاقی فنڈنگ سے اسے محروم رکھنے کا عزم ظاہر کر چکی ہے۔ ٹرمپ نے خاص طور پر ہارورڈ کے بین الاقوامی طلبہ کو نشانہ بنایا ہے، جو تعلیمی سال 25-2024 میں مجموعی داخلوں کا 27 فیصد تھے اور یونیورسٹی کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ہارورڈ کے ترجمان نے کہا کہ یہ انتظامیہ کی جانب سے ہارورڈ کی آزادی اظہار کے حق کے خلاف ایک اور غیر قانونی انتقامی اقدام ہے۔

ترجمان کے مطابق ہارورڈ اپنے بین الاقوامی طلبo کا تحفظ جاری رکھے گی۔ ادھر بدھ ہی کو، ٹرمپ کی وزیر تعلیم نے کولمبیا یونیورسٹی سے اس کی تعلیمی اسناد کی منظوری واپس لینے کی دھمکی دے دی۔ ریپبلکن پارٹی نے نیویارک کی اس آئیوی لیگ یونیورسٹی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے کو نظرانداز کیا، جس سے اس کی تمام وفاقی فنڈنگ خطرے میں پڑ گئی ہے۔

ہارورڈ کے برعکس، کولمبیا سمیت کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے ٹرمپ انتظامیہ کے سخت مطالبات کے آگے جھک چکے ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تعلیمی اشرافیہ بہت زیادہ لبرل ہو چکی ہے۔ لیکن بدھ کی کارروائی سے یہ اشارہ ملا کہ ٹرمپ اس پر بھی مطمئن نہیں، وزیر تعلیم لنڈا میک میہن نے ایکس پر کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی نے یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے پر آنکھیں بند رکھیں۔ انہوں نے یونیورسٹی پر نسلی، رنگ یا قومی شناخت کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی ممانعت کرنے والے وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

امریکی محکمہ تعلیم کے بیان کے مطابق اس کی شہری حقوق کی شاخ نے کولمبیا کی منظوری دینے والے ادارے سے اس مبینہ خلاف ورزی پر رابطہ کیا ہے۔ اگر کولمبیا کی منظوری واپس لی گئی تو یونیورسٹی تمام وفاقی فنڈنگ سے محروم ہو جائے گی، جو اس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس کے طلبا کو بھی وفاقی گرانٹس یا قرضے نہیں مل سکیں گے۔ نقادوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یہود مخالف رویے کے الزامات کو استعمال کر کے تعلیمی اشرافیہ کو نشانہ بنا رہی ہے اور جامعات کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہی ہے۔

انتظامیہ پہلے ہی کولمبیا کو ملنے والے 400 ملین ڈالر کی فنڈنگ کا جائزہ لے چکی ہے، جس کے بعد مارچ میں یونیورسٹی نے حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے انسدادِ یہود دشمنی، احتجاجات کی نگرانی، اور مخصوص تعلیمی شعبوں پر نظر رکھنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔ کولمبیا کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم حکومت کی جانب سے اپنی منظوری دینے والے ادارے کے ساتھ اٹھائے گئے خدشات سے آگاہ ہیں، اپنے کیمپس پر یہود دشمنی کے خلاف جنگ کے لیے پُرعزم ہے، ہم اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کولمبیا کی منظوری غیر ملکی طلبہ بین الاقوامی وفاقی فنڈنگ کی جانب سے ہارورڈ کے کرنے کی طلبہ کے چکی ہے کے لیے

پڑھیں:

اساتذہ کا وقار

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، امریکی صدر نے بڑی دھمکی دیدی
  • بھارت کی دوبارہ سبکی، امریکی صدر نے 5 طیارے گرانے کا ذکر پھر چھیڑ دیا
  • ضرورت پڑی تو ایران کو پھر نشانہ بنائیں گے، ٹرمپ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر بارک اوباما کو غدار قرار دے دیا
  • کشمیر پر ثالثی سے متعلق پاکستانی رہنما سے جمعہ کو ملاقات ہوگی، ترجمان امریکی محکمہ خارجہ
  • گولڈن ڈوم منصوبہ: امریکی میزائل شیلڈ کی کمان اسپیس فورس جنرل کو سونپ دی گئی
  • واشنگٹن ایرانی جوہری منصوبے کو مکمل تباہ کرنے سے قاصر ہے، سابق امریکی وزیر دفاع
  • اساتذہ کا وقار
  • ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو پھر دھمکی
  • ضرورت پڑی تو دوبارہ حملہ کردیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو دھمکی