پاکستان میں ہونے والے ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ ملک میں 60 فیصد بچوں کو کسی نہ کسی سطح پر گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔

یہ سروے ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج 4 جون کو جارحانہ رویوں کا شکار معصوم بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو گھریلو تشدد، گالم گلوچ، چیخ و پکار اور والدین کے غصے کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔ ان بچوں کی معصومیت، ان کا بچپن اور ان کی ذہنی نشوونما، سب کچھ ایسے تلخ رویوں کے بوجھ تلے دم توڑ رہے ہیں۔

لاہور کے علاقہ شاہدرہ میں قائم ’’امینہ سینٹر‘‘ ایک غیر رسمی تعلیمی ادارہ ہے جہاں جھونپڑیوں میں رہنے والے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مرکز میں پڑھنے والی ایک طالبہ، عشا نور نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کئی بچے ایسے ہیں جن کے گھروں میں والدین ہر وقت جھگڑتے، چیختے، گالیاں دیتے اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ جب بچے کھانے کی میز پر والدین کو لڑتے دیکھتے ہیں تو وہ منظر ان کے دل و دماغ میں نقش ہوجاتا ہے۔ وہ سہم جاتے ہیں اور ڈر کر راتوں کو اٹھ بیٹھتے ہیں۔ اس نے کہا کہ بچے کھلونے نہیں ہوتے کہ جب دل چاہا کھیل لیا اور جب دل چاہا توڑ کر پھینک دیا۔ ہم پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں، ہمیں صرف پیار اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

امینہ سینٹر میں بچوں کو صرف تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ ان کی ذہنی تربیت اور جذباتی بحالی پر بھی کام کیا جاتا ہے۔ مرکز کے استاد محمد عابد کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان بچوں سے سختی نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ نرمی، سمجھ بوجھ اور کھیلوں کے ذریعے رابطہ بنایا جائے تاکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا بچوں میں جارحانہ رویوں کو پروان چڑھانے میں ایک اہم عنصر بن چکا ہے۔ بچے فلموں، ڈراموں یا کارٹونز میں دیکھے گئے تشدد کو سیکھتے اور دہراتے ہیں، وہ اپنے پسندیدہ کرداروں کی نقل کرتے ہیں جن میں اکثر غصہ، انتقام یا بدزبانی نمایاں ہوتی ہے۔

ماہرین نفسیات اس صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہیں۔ کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر کے مطابق گھریلو جھگڑے، معاشی دباؤ اور والدین کے غصے بھرے رویے بچوں کی شخصیت پر گہرے منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔ کچھ بچے خود جارح بن جاتے ہیں جبکہ بعض مکمل طور پر سہم جاتے ہیں اور ان میں اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک نفسیاتی زنجیر ہے۔ جب والد دفتر میں کسی تناؤ کا شکار ہوتا ہے تو وہ گھر آکر بیوی پر غصہ نکالتا ہے، ماں بچوں پر جھڑکتی ہے، اور بچے یا تو اسی غصے کا عکس بن جاتے ہیں یا ذہنی بیماریوں کا شکار۔ ان کے بقول اس زنجیر کو توڑے بغیر معاشرے میں امن ممکن نہیں۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں کو محفوظ، پرامن اور محبت بھرا ماحول دیا جائے تو وہ نہ صرف بہتر انسان بن سکتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کو مثبت بنا سکتے ہیں۔ اس مقصد کےلیے خاندان، اسکول، ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کو مشترکہ طور پر کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق 60 فیصد بچوں کو گھریلو سطح پر کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی کارکردگی میں کمی، اور ڈرا دھمکا کر پڑھانے کی روش نے بھی بچوں کو مزید نفسیاتی دباؤ کا شکار بنایا ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر اسکول میں بچوں کے لیے ایک مستقل کونسلر ہونا چاہیے، جبکہ والدین کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرسکیں۔

یہ سچ ہے کہ زندگی کی تلخ حقیقتیں سب کو متاثر کرتی ہیں، لیکن بچوں کے معصوم ذہن ان تلخیوں کو سہنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہمیں اجتماعی طور پر اس بات کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں پر غصہ اتارنا، انہیں چیخ چیخ کر سکھانا، یا مارنا پیٹنا، تربیت نہیں، بلکہ ظلم ہے۔ آج کا دن ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ اگر ہم نے آج بچوں کو محفوظ اور خوش نہ رکھا تو کل کا معاشرہ مزید بگڑ جائے گا۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان میں کرتے ہیں جاتے ہیں بچوں کو کا شکار بچوں کی

پڑھیں:

سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا

---فوٹو بشکریہ بین الاقوامی میڈیا 

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا ہے کہ ایک لاکھ 86 ہزار 73 گھر سیلاب سے متاثر ہوئے، 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں۔

عرفان علی کاٹھیا نے اپنے بیان میں کہا کہ 26 اگست کو سیلاب کی شروعات ہوئی تھی، 27 اضلاع کو مجموعی طور پر سیلاب سے نقصان پہنچا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ساڑھے 11 ہزار افراد کی مدد سے 27 ستمبر کو سروے شروع ہوا تھا، 14 لاکھ 41 ہزار سے زائد ایکڑ پر کاشت فصل خراب ہوئی۔

عرفان علی کاٹھیا کے مطابق 2 لاکھ 14 ہزار 493 افراد کا ڈیٹا اب تک مکمل ہو چکا، 953 شکایات اب تک موصول ہوئی ہیں جن کو حل کیا جا چکا ہے۔

 ڈی جی عرفان علی کاٹھیا کا کہنا ہے کہ روجھان اور صادق آباد کی صرف دو تحصیلوں میں سروے نہیں کیا جا سکا، لاہور سروے سے متعلق کوئی شکایت ہے تو آن لائن رجوع کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • اسلام آباد: ٹریفک پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • او آئی سی سی آئی سروے میں 73فیصد افراد نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں قراردیدیا
  • پاکستان کی نیہا منکانی ٹائم میگزین کی ’100 کلائمیٹ‘ فہرست میں شامل
  • اوگرا نے ایل پی جی کی قیمت میں کمی کردی، گھریلو سلنڈر 69 روپے 44 پیسے سستا ہوگیا
  • نئے گیس کنکشنز کی درخواستوں کی بھرمار، سسٹم بیٹھ گیا
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا