افغان باشندوں کی ٹرمپ سے سفری پابندیوں میں نرمی کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) اسلام آباد سے موصولہ خبر رساں ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کے دوران امریکہ کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں نے آج بروز جمعرات صدرڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے امریکہ میں داخلے پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیں۔ قبل ازاں امریکی صدر نے افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے لیے امریکہ داخلے پر پابندی کے حکم نامہ پر دستخط کیے تھے۔
ان افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی گئی یہ سفری پابندیاں ان کی امریکہ سے ملک بدری کا سبب بن سکتی ہے اور اگرانہیں واپس افغانستان جانا پڑا تو وہاں وہ شدید ظلم و ستم کا شکار ہوں گے۔
(جاری ہے)
امریکہ کے افغانستان پر حملے اور طالبان کے خلاف جنگ کے دوران بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے امریکہ کے لیے کام کیا تھا، ان میں سے بہت سے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہجرت کر کے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں جا چکے ہیں۔
مگر اکثر اب بھی امریکہ پہنچے کی کوشش میں دیگر ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔انہیں اپنے وطن واپس جانے سے گوناگوں خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایسےافغان باشندوں کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے 'ٹریول بین‘ یا سفری پابندیوں سے استثنیٰ کی اپیل دراصل ٹرمپ کی طرف سے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور افغانستان سمیت 12 ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندیوں کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسا سکیورٹی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ امریکی صدر نے ان 12 ممالک کے علاوہ مزید سات ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر جزوی پابندی بھی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پابندیوں کا اطلاق نو جون سے شروع ہوگا۔
ٹرمپ کی سفری پابندیاں ان ہزاروں افغانوں کو متاثر کرسکتی ہیں ہے جو طالبان کی دوبارہ برسر اقتدار آنے والی حکومت سے فرار ہو کر امریکہ پہنچے تھے۔ ان کی دوبارہ آبادکاری کی منظوری ایک امریکی پروگرام کے ذریعے ملی تھی، جو افغانستان میں طالبان کے ظلم و ستم کے خطرات سے دوچارافغانوں کی مدد کے لیے کام کرتا ہے۔ ان میں امریکی حکومت، میڈیا اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیمیں یا انسان دوست گروپس کے لیے کام کرنے والے افغان باشندے شامل ہیں ۔
اس پروگرام کو تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری میں معطل کر دیا تھا۔ اس پروگرام کی معطلی کے شکار افغان باشندے پاکستان اور قطر سمیت متعدد ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دریں اثناء پاکستان بھی ان غیر ملکیوں کو ملک بدر کر رہا ہے، جنہیں پاکستانی حکام ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی قرار دیتے ہیں۔ ایسے غیر ملکیوں میں زیادہ تر افغان باشندے شامل ہیں۔
اسلام آباد کے اس اقدام سے افغان پناہ گزینوں میں مزید خطرات کا احساس پایا جاتا ہے۔طالبان کی انتقامی کارروائیوں اور پاکستانی حکام کی طرف سے ممکنہ گرفتاری کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک افغان باشندے نے کہا،'' یہ دل دہلا دینے والی خبر ہے۔‘‘ یہ افغان باشندہ کابل میں 2021 ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے پہلے امریکی ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہوئے ان کے لیے کام کرتا تھا۔
خالد خان نامی ایک اور افغان باشندے کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی نئی پابندیاں اُسے اور ہزاروں دیگر افغانوں کو بے سہارا کر دیں گی اور وہ پاکستان میں گرفتار کر لیے جائیں گے۔ اس کا کہنا تھا کہ پولیس نے محض امریکی سفارتخانے کی درخواست پر پہلے اسے اور اس کے خاندان کو چھوڑ دیا تھا۔
خالد خان نے کہا،''میں نے آٹھ سال امریکی فوج کے لیے کام کیا اور میں اب خود کو لاوارث محسوس کرتا ہوں۔
ہر مہینے، ٹرمپ ایک نیا قانون بنا رہے ہیں۔‘‘ تین سال قبل فرار ہو کر پاکستان آنے والے اس افغان باشندے کا کہنا ہے۔''افغانستان واپسی سے میری بیٹی کی تعلیم خطرے میں پڑ جائے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا رکھی ہے۔ میری بیٹی ان پڑھ رہ جائے گی۔ جب تک ٹرمپ وہاں ہیں، ہم کہیں کے نہیں ہیں۔ میں اپنے تمام معاملات اللہ پر چھوڑ رہا ہوں۔‘‘طالبان کی جانب سے ٹرمپ کی سفری پابندیوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
حکومت پاکستان نے پہلے کہا تھا کہ وہ افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے سلسلے میں میزبان ممالک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ تاہم ٹرمپ کے تازہ ترین ایگزیکٹیو آرڈرپر تبصرے کے لیے کوئی بھی دستیاب نہیں تھا۔
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکہ میں داخلے پر افغان باشندوں افغان باشندے کے لیے کام پر پابندی کے امریکہ طالبان کے ممالک کے ٹرمپ کی کا کہنا کام کر تھا کہ
پڑھیں:
امریکی پابندیوں پر ردعمل‘ سوڈان کا براہِ راست روابط پر زور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-19
خرطوم (انٹرنیشنل ڈیسک) سوڈان نے امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے سوڈانی افراد اور اداروں پر عائد پابندیوں پر ردعمل میں براہِ راست روابط کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق سوڈان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا کہ اس طرح کے یک طرفہ اقدامات مطلوبہ اہداف کے حصول میں مددگار نہیں جن میں سوڈان میں امن کا قیام اور عالمی امن و سلامتی کا تحفظ شامل ہے۔بیان میں کہا گیا کہ سوڈانی حکومت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بحرانوں کو حل کرنے کا بہترین طریقہ براہِ راست رابطہ ہے، نہ کہ ان قیاس آرائیوں پر انحصار کرنا جو ایسے سیاسی ایجنڈے رکھنے والے فریقین پھیلاتے ہیں جو سوڈانی عوام کے مفاد میں نہیں ہیں۔ بیان میں زور دیا گیا کہ سوڈان میں امن کا قیام بنیادی طور پر سوڈانی عوام کا معاملہ ہے جو تمام طبقات کی امنگوں پر مبنی ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ سوڈانی حکومت امن کے حصول کی ذمے دار ہے اور یہ مقصد تمام ذرائع سے پورا کیا جائے گا، جن میں قومی خودمختاری کے احترام کے دائرے میں رہ کر تمام فریقین سے بات چیت اور مشترکہ اقدامات شامل ہیں۔ یاد رہے کہ جمعہ کے روز امریکا نے سوڈانی وزیر خزانہ جبریل ابراہیم اور البرا بن مالک بریگیڈ نامی ایک مسلح گروہ پر پابندیاں عائد کیں جو سوڈانی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہا ہے۔