غزہ: خوراک کے موجودہ ذخائر مکینوں کی بقاء کے لیے انتہائی ناکافی
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 جون 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی پابندیوں کے باعث غزہ میں لوگوں کو بہت کم مقدار میں خوراک دستیاب ہے جو انسانی زندگی کی بقا کے لیے کافی نہیں۔
علاقے میں غذائی قلت کا خطرہ بدستور برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے بتایا ہے کہ اس وقت غزہ میں ہر شہری کو روزانہ اوسطاً 1,400 حرارے میسر ہیں جبکہ انسانی جسم کو کم از کم 2,300 حراروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
Tweet URLاکتوبر 2023 اور دسمبر 2024 کے درمیانی عرصہ میں غزہ کے لوگوں کو روزانہ فی کس اوسطاً 1,510 حرارے دستیاب تھے جو مطلوبہ مقدار کا 72 فیصد ہیں۔
(جاری ہے)
'ایف اے او' نے کہا ہے کہ اس صورتحال سے بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی منظم اور بڑھتی ہوئی خلاف ورزی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حسب ضرورت خوراک کی دستیابی کے حق، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت اور مسلح تنازع میں شہریوں کو تحفظ دینے کے قوانین کی پامالی خاص طور پر تشویشناک ہے۔
متنوع خوراک سے محرومیادارے نے کہا ہے کہ ان حالات میں ایسے خاندانوں کو بھوک اور غذائیت کی کمی کے سنگین اثرات کا سامنا ہے جن کے پاس نہ تو نقدی ہے اور نہ ہی انہیں جسمانی طور پر فعال مردوں کا ساتھ میسر ہے۔ غزہ میں لوگوں کو درپیش بھوک کے بارے میں یہ تجزیہ گزشتہ مہینے غذائی تحفظ کے ماہرین کی جانب سے جاری کردہ انتباہ سے مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق علاقے کی پوری آبادی متنوع خوراک سے محروم ہو چکی ہے۔
'ایف اے او' نے کہا ہے کہ باقاعدہ امدادی اداروں کے زیرانتظام بڑے پیمانے پر خوراک اور دیگر امداد کی تقسیم کے بغیر انسانی حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اسرائیل پر تواتر سے زور دیا ہے کہ وہ بڑی مقدار میں امداد پہنچانے کی اجازت دے اور اس حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔
نامعلوم امواتاس وقت غزہ کی آبادی 21 لاکھ ہے جو اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے سے پہلے 22 لاکھ 30 ہزار تھی۔ 'ایف اے او' نے فلسطینی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 30 اپریل تک 52,400 فلسطینی ہلاک ہو چکے تھے جبکہ 11 ہزار لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
اگرچہ دوران جنگ غزہ میں 60 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی ہے تاہم نامعلوم تعداد میں لوگ فطری وجوہات یا بھوک، علاج میسر نہ آنے اور شدید زخمی ہونے کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔
ادارے نے جون 2024 میں معروف طبی جریدے دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے بالواسطہ اثرات کے نتیجے میں مزید ایک لاکھ 86 ہزار لوگوں کی موت واقع ہو سکتی ہے۔'ایف اے او' نے کہا ہے کہ غزہ میں روزانہ 2,297 ٹن یا 120 ٹرکوں کے برابر غذائی مدد درکار ہے تاکہ ہر فرد کو کم از کم 2,100 حرارے میسر آ سکیں۔ بدھ کو اقوام متحدہ کی ٹیموں نے کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے 130 امدادی ٹرکوں تک رسائی کی درخواست کی تھی لیکن اسرائیلی حکام نے آٹے کے 50 ٹرک ہی علاقے میں لے جانے کی اجازت دی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ ایف اے او
پڑھیں:
افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں، وزیرِ دفاع
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ موجود ہیں، افغان طالبان نے ان کو پناہ دی ہوئی ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کے دوران وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے لیے مانیٹرنگ کا میکنزم افغان طالبان کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ بھی یہی ہے کہ جو لوگ افغانستان سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور تباہی پھیلاتے ہیں، ان لوگوں کو روکنے کے لیے ہمیں ایک میکنزم چاہیے یا افغان طالبان اپنے طور پر ان کو روکیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کہنے پر دہشتگردی ہوئی تو پھر ’اینج تے اینج ہی سہی‘، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع نے کہا کہ دہشتگردوں کو بارڈر کراس کرنے کے لیے فری ہینڈ دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو مانیٹر نہیں کرتے اور ان کو نہیں روکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ان کی مرضی بھی شامل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگرد داخل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اس حوالے سے مانیٹرنگ کے لیے ایک میکنزم بنائے گا تاکہ افغانستان سے دہشتگرد بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بارڈر کراس ہورہا ہے، افغانستان سے باڑ کاٹ کر دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، ہم ان کو کاؤنٹر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر کے دوران ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مانیٹرنگ کے عمل میں ثالث ممالک کا کردار بھی کسی نہ کسی صورت میں ہوگا تاکہ کوئی خلاف ورزی نہ ہو اور پندرہ دن یا مہینے بعد دوبارہ امن خراب نہ ہو۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معاملات کی نگرانی کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں خفیہ ایجنسیاں بھی شریک تھیں جن کے پاس جدید معلومات موجود ہیں کہ دہشتگردی کہاں سے ہورہی ہے، کون کررہا ہے، اس کے پیچھے کون ہے، بھارت کا اس میں کیا کردار ہے اور موجودہ افغان حکومت میں کون سے عسکری گروپس شامل ہیں۔ جس طرح خفیہ ایجنسیاں مذاکرات کررہی ہیں شاید اس طرح کوئی اور نہ کرسکے۔ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا جس میں یہ ساری چیزیں طے ہوں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر لڑے ہیں۔ دونوں کے مشترکہ مفاد ایسے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ کابل میں موجود ہے تو افغانستان کے نظام میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں نجی طور پر افغان حکومت ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی میں کمی ضرور ہوئی ہے مگر معاملات ختم نہیں ہوئے۔ جب سے مذاکرات چل رہے ہیں 3 سے 4 وارداتیں سرحد پار سے ہوئی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان ترکیہ جنگ بندی خواجہ آصف قطر وزیردفاع