WE News:
2025-07-26@07:17:50 GMT

روحانی تربیت یا عملی زندگی سے فرار؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT

روحانی تربیت یا عملی زندگی سے فرار؟

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، معیشت اور عالمی سطح پر بدلتے ہوئے رجحانات نے انسان کی زندگی کو نئے سوالات اور چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔

ان حالات میں نوجوان نسل کسی بھی معاشرے کی ترقی، فکری رہنمائی اور استحکام کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر جب یہی نسل مذہبی جوش یا فکری وابستگی کے نام پر عملی زندگی سے کٹنے لگے، تو معاشرہ سوال کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں تبلیغی جماعت ایک پرامن، غیر سیاسی اور دعوتی مذہبی تحریک کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد انسان کو اس کے خالق سے جوڑنا، عبادات کی طرف راغب کرنا، اور اسلامی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ لیکن اس فکر کا ایک رخ ایسا بھی ہے جو کئی نوجوانوں کو تعلیم، معاشی خودمختاری اور سماجی کردار سے دور لے جا رہا ہے۔

تبلیغی جماعت کی دعوت میں آخرت کو اصل منزل اور دنیا کو عارضی قیام گاہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس نظریے کی روح قرآنی ہے، لیکن جب اس کی تعبیر اس انتہا کو چھو لے کہ دنیاوی تعلیم، ہنر، اور سماجی خدمات کو غیر ضروری یا ’فانی جھنجھٹ‘ سمجھا جانے لگے، تو یہی تعبیر نوجوانوں کو بے عملی، انحصاری مزاج اور فکری جمود کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

یونیورسٹیوں میں تعلیم چھوڑ کر جماعتوں میں مستقل وقت لگانے والے نوجوان، وہ ہنر یا علم حاصل نہیں کر پاتے جو انہیں نہ صرف خود کفیل بناتا، بلکہ معاشرے کے لیے بھی مفید بناتا۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ ایک ایسی نسل کی صورت میں نکل سکتا ہے جو بلند مقاصد کے بجائے محدود دائرۂ کار میں قید ہو کر رہ جائے۔

تبلیغی جماعت کی صفوں میں سوالات کی گنجائش محدود نظر آتی ہے۔ نوجوان جب صرف تلقین، ہدایت یا طے شدہ نصیحتوں کے ذریعے دینی شعور حاصل کرتے ہیں، تو ان کی تنقیدی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ فکری تربیت کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے، کیوں کہ موجودہ دنیا صرف عقیدے نہیں، دلیل، تحقیق اور مکالمے کی بنیاد پر چلتی ہے۔

اس رجحان سے صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ قومی، تعلیمی اور معاشی سطح پر بھی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا ہمارے نوجوان صرف وعظ و نصیحت کے ذریعے ایک مکمل شخصیت بنا سکتے ہیں؟ یا انہیں دینی شعور کے ساتھ دنیاوی بصیرت بھی درکار ہے؟

اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ روحانی ارتقا کے ساتھ ساتھ دنیاوی توازن کا بھی درس دیتا ہے۔ قرآن ہمیں واضح طور پر یاد دہانی کرواتا ہے:

اور جو کچھ اللہ نے تجھے عطا کیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنا، اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول۔‘(القصص: 77)

یہ آیت دعوت دیتی ہے کہ انسان اپنے ایمان کے ساتھ دنیاوی ذمہ داریوں کو بھی اپنائے۔ دین کو دنیا سے الگ کرکے دیکھنے کا رجحان صرف فکری افراط و تفریط کو جنم دیتا ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ تبلیغی جماعت جیسی بااثر تحریکیں دین کی دعوت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو عملی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر بھی غور کریں۔

صرف نماز، ظاہری وضع قطع یا مخصوص جماعتی معمولات نوجوانوں کو نہ تو مکمل مسلمان بناتے ہیں، نہ ہی مکمل انسان۔ ہمیں ایسے داعی، ایسے مسلمان اور ایسے نوجوان درکار ہیں جو مسجد کے ساتھ ساتھ میدانِ عمل میں بھی رہنمائی کر سکیں۔

تبلیغ، اگر فکری پختگی، تخلیقی سوچ، معاشی خودمختاری، اور انسانیت کی خدمت کے ساتھ ہو، تو یقیناً ایک نئی روشن نسل کو جنم دے سکتی ہے۔ ورنہ ہم صرف مطیع، غیر فعال اور محدود سوچ کے حامل افراد پیدا کرتے رہیں گے، جو نہ دین کے لیے سودمند ہیں، نہ دنیا کے لیے۔

نوٹ: یہ تحریر کسی فرد یا جماعت کی نفی یا تحقیر کے لیے نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ مکالمے کی دعوت ہے تاکہ نوجوان نسل کو توازن، بصیرت اور فعالیت کی طرف مائل کیا جا سکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تبلیغی جماعت نوجوانوں کو کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

  ضعیف کینسر مریضہ خاتون کو رشتہ دار سڑک کنارے چھوڑ کر فرار

 

بھارت میں ایک انسانیت سوز واقعہ سامنے آیا، جہاں رشتہ دار ایک ضعیف خاتون کو سڑک کنارے چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک عورت اور مرد نے معمر خاتون کو سڑک کنارے چھوڑا، پھر خاتون نے اس پر چادر ڈالی دوسری خاتون نے منہ سے چادر ہٹائی تو بوڑھی خاتون دہائیاں دینے لگی۔
بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع ایودیھا میں انسانیت کو شرما دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں رشتہ دار ایک معمر خاتون کو سڑک کنارے بے یار و مددگار حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مرد اور عورت بزرگ خاتون کو سڑک کے کنارے لا کر چھوڑتے ہیں، بعد ازاں ایک خاتون اس پر چادر ڈالتی ہے جبکہ دوسری خاتون چادر ہٹا کر اسے روتا ہوا چھوڑ جاتی ہے۔
ضعیف خاتون کینسر کی مریضہ تھی اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ بدھ کی رات تقریباً دو بجے دو خواتین اور ایک مرد ای-رکشہ سے آئے اور ضعیف خاتون کو وہاں اتار کر چھوڑ دیا۔ ان میں سے ایک خاتون نے مڑ کر ضعیف خاتون کا چہرہ دیکھا، پھر کچھ کہے بغیر تینوں وہاں سے چل دیے۔
واقعے کی اطلاع جمعرات کی صبح تقریباً 10 بجے درشن نگر چوکی پولیس کو ملی، جس کے بعد ضعیف خاتون کو فوری طور پر میڈیکل کالج کے ٹراما سینٹر میں داخل کرایا گیا۔ جہاں وہ علاج کے دوران شام کو انتقال کر گئیں۔
پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ کی ہے، مگر اندھیرے اور فاصلے کی وجہ سے ای-رکشہ اور اس میں سوار افراد کی شناخت ابھی واضح نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس ضعیف خاتون کے رشتہ داروں کی شناخت کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
واقعے کے منظر نے ہر دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف خاندانی رشتوں کی بے حسی کا آئینہ دار ہے بلکہ معاشرے میں بڑھتے بے رحمانہ رویوں پر بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • بیلجیم سے فرار ہونے والا ’والابی‘ فرانس میں پکڑا گیا 
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  •  ٹک ٹاک کے جنون نے ایک اور زندگی نگل لی
  • سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟
  • بیلجیم سے فرار ہونے والا والابی فرانس میں پکڑا گیا
  •   ضعیف کینسر مریضہ خاتون کو رشتہ دار سڑک کنارے چھوڑ کر فرار
  • وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وزارتوں میں تکنیکی ماہرین کی تعیناتی اور سرمایہ کاری حکمت عملی پر اجلاس
  • شوگر کے مریضوں کے لیے زندگی بچانے والا معمول کیا ہوسکتا ہے؟
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار