عید کے موقعے پر اکثر افراد سیرو تفریح کا بھی پروگرام بناتے ہیں جس سے گھر کے بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے ہی عید کی خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد نہ صرف سیاسی اور انتظامی مرکز ہے بلکہ اپنے قدرتی حسن، سرسبز پہاڑیوں اور تاریخی مقامات کے باعث سیاحوں کے لیے ایک پرکشش منزل بھی ہے۔ شہر اور اس کے قرب و جوار میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں مقامی اور غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں

یہ بھی پڑھیں: عید کی چھٹیوں میں خیبر پختونخوا کے من پسند سیاحتی مقامات کیا ہیں؟

عید کی چھٹیوں میں اسلام آباد میں اور اس کے نزدیک واقع سیاحتی مقامات پر سیرو تفریح کے لیے جایا جا سکتا ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ کون سی جگہیں ہیں۔

دامن کوہ

اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں میں واقع دامن کوہ ایک پرسکون تفریحی مقام ہے۔ یہاں سے شہر کا دلکش منظر اور مارگلہ کی سرسبز وادیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

دامن کوہ کی فضا میں ایک خاص سکون پایا جاتا ہے۔

مری

مری جو ملکہ کوہسار کے نام سے مشہور ہے اسلام آباد سے تقریباً 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہاں کی پتریاٹہ چیئرلفٹ ایک منفرد تجربہ پیش کرتی ہے جہاں سے پہاڑوں اور سرسبز وادیوں کا دلکش منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ عید کے موقعے پر یہ جگہ خاص طور پر سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔

قلعہ پھروالہ

اسلام آباد سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع قلعہ پھروالہ ایک تاریخی مقام ہے جو گکھڑ حکمرانوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔

اس مقام کی خاموشی اور تاریخی اہمیت ایک منفرد تجربہ فراہم کرتی ہے۔

شاہدرہ

اسلام آباد کے قریب واقع شاہدرہ ایک خوبصورت وادی ہے جہاں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ یہاں کے ریسٹورنٹس اور اسٹال مالکان نے اپنی میزیں اور کرسیاں بہتے ہوئے چشموں کے عین وسط میں لگائی ہوئی ہوتی ہیں جہاں سے ریفریشمنٹ کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہاں کی فضا میں ایک خاص سکون اور قدرتی خوبصورتی ہے جو موسم گرما میں مزید دلکش ہو جاتی ہے۔

نیلا سانڈھ آبشار

نیلا سانڈھ آبشار اسلام آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اپنی نیلے پانی کی جھیل اور سرسبز پہاڑیوں کے لیے مشہور ہے۔

یہاں کی فضا میں ایک خاص سکون اور قدرتی خوبصورتی ہے جو عید کے دنوں میں مزید دلکش ہو جاتی ہے۔

خانپور ڈیم

اسلام آباد سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خانپور ڈیم نہ صرف پانی کا ذخیرہ ہے بلکہ واٹر اسپورٹس کا مشہور مقام بھی بن چکا ہے۔

یہاں کشتی رانی، جیٹ اسکی اور zip-lining جیسے ایڈونچر سے بھرپور سرگرمیاں دستیاب ہیں اور موسم گرما میں یہاں جانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔

تلہ جوگیاں اور کوٹلی ستیاں

اگرچہ یہ مقام اسلام آباد سے کچھ فاصلے پر ہیں مگر کوٹلی ستیاں اور تلہ جوگیاں جیسے پہاڑی علاقے ہائیکنگ، قدرتی چشموں اور ہری بھری وادیوں کے لیے مشہور ہیں۔ ایڈوینچر کے شوقین افراد کے لیے یہ جگہیں نہایت پرکشش ہیں۔

سملی ڈیم

راول ڈیم کے مقابلے میں نسبتاً کم مشہور مگر زیادہ قدرتی خوبصورتی کا حامل یہ ڈیم اسلام آباد کے مضافات میں واقع ہے۔ یہاں کا نیلا پانی، پہاڑوں سے گھرا ماحول اور کم ہجوم والے راستے اسے ’پرسنل ایڈونچر‘ کے لیے بہترین بناتے ہیں۔

اس سے آگے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو پہاڑیوں، چشموں اور کھیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کا فطری حسن اور مقامی دیہی زندگی کا مشاہدہ ایک منفرد تجربہ ہے۔

 خیرا گلی سے نیچے جنگلاتی ٹریک

یہ علاقہ مری کی حدود میں تو آتا ہے مگر اسلام آباد سے بآسانی قابل رسائی ہے۔

یہاں سے کئی چھوٹے قدرتی ٹریک نکلتے ہیں جو بالکل غیر معروف ہیں اور مکمل فطری سکون فراہم کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خانپور ڈیم سملی ڈیم قلعہ پھروالہ کھیرا گلی مارگلہ تفریحی مقامات مری نیلا سانڈھ آبشار.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خانپور ڈیم سملی ڈیم قلعہ پھروالہ اسلام آباد سے تقریبا جا سکتا ہے کے لیے عید کی

پڑھیں:

ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟

پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (IIAP) کی مینجمنٹ متحدہ عرب امارات (UAE) کو گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (G2G) معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اب یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی (جناح انٹرنیشنل) اور لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) ایئرپورٹس کو بھی اسی ماڈل پر آؤٹ سورس کیا جا سکتا ہے۔

یہ اقدامات ملکی معاشی بحران، عالمی معیار کی سہولیات کی ضرورت، اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کی پالیسی کے تحت کیے جا رہے ہیں، لیکن اس پر شفافیت اور قانونی تقاضوں پر سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

 ایئرپورٹس کی آمدنی: فیصلہ کیوں اہم ہے؟

پاکستان کے 3 بڑے ایئرپورٹس — اسلام آباد، کراچی، اور لاہور — ملک کی ایوی ایشن آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ نے پچھلے 3 مالی سالوں میں تقریباً 46 ارب روپے ریونیو کمایا۔ لاہور ایئرپورٹ کی آمدنی 44 ارب روپے اور کراچی ایئرپورٹ کی آمدنی 40 ارب روپے رہی۔

مجموعی طور پر تینوں ایئرپورٹس نے 130 ارب روپے کی کمائی کی ([National Assembly Data, 2024]).

مارچ 2025 میں اسلام آباد ایئرپورٹ نے صرف کارگو آپریشنز سے 72 کروڑ روپے کمائے، جو کہ ایک ماہ میں سب سے بڑی وصولی تھی۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ اربوں روپے کے مالی مفاد سے جڑا ہوا ہے۔

اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ: کیا ہوا؟

حکومت نے پہلے IFC (International Finance Corporation) کی مشاورت سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ ایک ترک کنسورشیم (TERG) نے 47.25 فیصد ریونیو شیئر کی پیشکش کی، لیکن حکومت کا مطالبہ 56 فیصد تھا۔ ناکامی کے بعد یہ ٹینڈر منسوخ کر دیا گیا۔

اب حکومت براہ راست UAE کے ساتھ G2G معاہدے کی طرف جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی موجودگی میں مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، جو ایک اہم سیاسی اور معاشی سگنل ہے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس: اگلا مرحلہ؟

اسلام آباد کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس بھی آؤٹ سورسنگ کے عمل میں شامل ہوں گے۔

کراچی ایئرپورٹ، جو کارگو اور بزنس ٹریفک کے لیے سب سے اہم سمجھا جاتا ہے، کا سالانہ ریونیو 13 ارب روپے کے قریب ہے۔

لاہور ایئرپورٹ، جو سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی پروازوں کا بڑا مرکز ہے، اس کی آمدنی بھی اسلام آباد کے قریب قریب ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک مشترکہ آپریشنل ماڈل بنایا جا رہا ہے، جس کے تحت تینوں بڑے ایئرپورٹس کو ایک ہی غیر ملکی ادارے کو 15 سالہ آؤٹ سورسنگ کنٹریکٹ پر دیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں ریونیو شیئرنگ، کارگو آپریشنز، ڈیوٹی فری زونز، اور پارکنگ سروسز شامل ہوں گی، جبکہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور رن وے آپریشنز CAA کے پاس رہیں گے۔

ممکنہ فوائد (Merits) 1. عالمی معیار کی سروسز

دبئی اور ابو ظہبی جیسے ایئرپورٹس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، UAE کا انتظام جدید سہولیات، جدید ٹیکنالوجی اور کسٹمر کیئر کے معیار کو بلند کرے گا۔

2. سرمایہ کاری میں اضافہ

آؤٹ سورسنگ معاہدوں سے حکومت کو فوری ایڈوانس فیس اور ریونیو شیئرنگ کی صورت میں سالانہ اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

3. کمرشل ترقی

ریٹیل، ہوٹل، ڈیوٹی فری زونز اور پارکنگ سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی مجموعی کمائی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

4. بوجھ میں کمی

CAA کے لیے روزمرہ آپریشنز کی بجائے ریگولیٹری اور سیکیورٹی کردار پر توجہ دینا آسان ہو جائے گا۔

 ممکنہ نقصانات (Demerits) 1. قانونی شفافیت کے خدشات

اگر PPRA قوانین کو نظر انداز کیا گیا تو یہ اقدام متنازع ہو سکتا ہے اور شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔

2. قومی خودمختاری پر اثر

ایئرپورٹس اہم اسٹریٹجک تنصیبات ہیں؛ ان کی مینجمنٹ کسی غیر ملکی حکومت کو دینا طویل مدتی خطرات رکھتا ہے۔یاد رھے کہ UAE کے تقریبا تمام ائر پورٹ برطانیہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے لوگ چلا رھے ھین

3. ریونیو شیئرنگ کے مسائل

اگر معاہدے کی شرائط غیر واضح یا غیر متوازن ہوئیں تو طویل مدت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

4. ملازمین کا مستقبل

اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کہ کسی ملازم کو نہیں نکالا جائے گا، لیکن نجی یا غیر ملکی انتظامات سخت پرفارمنس پالیسیز نافذ کرتے ہیں۔

5. سیکیورٹی خطرات

حساس اداروں کی نگرانی اور انفارمیشن سیکیورٹی پر غیر ملکی اثرات ایک نازک معاملہ ہیں۔

 بین الاقوامی مثالیں

قطر نے Hamad International Airport کو اپنی سرکاری کمپنی QACC کے ذریعے جدید بنایا، لیکن تمام فیصلے پارلیمانی منظوری کے بعد کیے۔

سعودی عرب نے ریاض اور جدہ کے ایئرپورٹس کے لیے بین الاقوامی کنسورشیمز کو شامل کیا، لیکن معاہدے شفاف ٹینڈرنگ کے ذریعے طے پائے۔

ترکی میں Istanbul Airport کی آؤٹ سورسنگ ایک بڑے عالمی آپریٹر کو دی گئی، لیکن مکمل مسابقتی بولی کے بعد۔

امریکہ میں DP World کا بندرگاہ معاہدہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا — یہ ایک سبق ہے کہ عوامی اعتماد کے بغیر G2G معاہدے کامیاب نہیں ہوتے۔

 کیا یہ قدم درست ہے؟

اسلام آباد، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ بظاہر ایک اسٹریٹجک مالی اقدام ہے۔ دوست ملک UAE کے ساتھ شراکت عالمی معیار، سرمایہ کاری، اور بہتر مینجمنٹ کی جانب ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔

تاہم، حکومت کو چاہیے کہ:

معاہدے کی شفاف تفصیلات پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھے۔

ریونیو شیئرنگ کے واضح اور متوازن اصول بنائے۔

ملازمین کے حقوق اور قومی سیکیورٹی کے تقاضے قانونی دستاویزات میں محفوظ کرے۔

کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ سے پہلے اسلام آباد کے ماڈل کے نتائج کا جائزہ لے۔

نتیجہ

یہ فیصلہ پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس کی کامیابی مکمل طور پر شفافیت، قانونی فریم ورک، اور عوامی اعتماد پر منحصر ہے۔ اگر حکومت نے صحیح حکمت عملی اختیار کی تو یہ ماڈل نہ صرف اسلام آباد بلکہ کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کو بھی عالمی معیار تک لے جا سکتا ہے۔ تاھم قومی ماہرین نے یہ  خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے بندرگاہوں کے ہوائی اڈے اور دیگر ادارے نہیں چلا سکتے اور بیرونی دنیا سے ان قیمتی اشیاء منافع بخش تنظیموں کو چلانے کے لیے کہتے ہیں جو کہ ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔آنے والے وقتوں میں شاید  ارباب اختیار کو  جواب دینا پڑے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

آؤٹ سورسنگ ایئرپورٹس سول ایوی ایشن

متعلقہ مضامین

  • زمان پارک کے باہر اسلام آباد پولیس پر حملے کا کیس، عمران خان کو سمن جاری
  • ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ: دوستوں سے شراکت یا قانونی اصولوں کی خلاف ورزی؟
  • اسلام آباد میں ڈیجیٹل پارکنگ اور ایم ٹیگ سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ
  • اپوزیشن اتحاد کی اے پی سی 31 جولائی کو اسلام آباد میں ہوگی
  • سی ڈی اے کا اسلام آباد میں الیکٹرک ٹرام بسیں چلانے کا فیصلہ
  • اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
  • اسلام آباد ایئرپورٹ پر لاوارث سامان 560 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے؟
  • اسلام آباد میں گاڑیوں کے لیے ایم ٹیگ لازمی قرار
  • پانی کے ریلے میں بہہ جانے والے کرنل (ر) اسحاق، ان کی  25 سالہ بیٹی کی تلاش کے لیے آپریشن جاری
  • مون سون کا چوتھا اسپیل یا تباہی؟تحریر عنبرین علی