ماحولیاتی تبدیلیاں اور بھارتی کسانوں کی خودکُشیوں میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جون 2025ء) مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے کھیت میں کھڑی 30 سالہ میرابائی کھنڈکر نے اپنی تباہ حال زندگی کی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ ان کی زمین نے فصلوں کی بجائے صرف قرض ہی پیدا کیا ہے۔ خشک سالی نے ان کی فصلوں کو برباد کر دیا اور ناقابلِ برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر ان کے شوہر امول نے خودکشی کر لی۔
بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی تاریخ طویل ہے، جہاں ایک فصل کی ناکامی لاکھوں خاندانوں کے لیے تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ مگر اب ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسم نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کا دباؤپانی کی قلت، سیلاب، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور بے ترتیب بارشیں بھارتی کسانوں کے لیے نئے چیلنجز لے کر آئی ہیں۔
(جاری ہے)
یہ وہ شعبہ ہے، جو بھارت کی 1.4 ارب آبادی کے 45 فیصد افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ میرابائی کے شوہر امول کی تین ایکڑ زمین پر سویا بین، باجرا اور کپاس کی فصلیں شدید گرمی کی نذر ہو گئیں۔ قرض دہندگان سے لیا گیا قرض ان کے کھیت کی سالانہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ تھا۔ نتیجتاً امول نے گزشتہ برس زہر کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔
میرابائی، جو اب تین بچوں کی اکیلی کفیل ہیں، کہتی ہیں، "جب وہ ہسپتال میں تھے، میں نے تمام دیوتاؤں سے ان کی جان بچانے کی دعا کی۔
‘‘ امول کی موت کے وقت، ان دونوں کی آخری بات چیت کا موضوع بھی قرض ہی تھا۔ یہ المیہ صرف ان کا نہیں بلکہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ خطے کے لاکھوں کسانوں کی کہانی ہے، جو کبھی اپنی زرخیز زمینوں کے لیے مشہور تھا۔ خودکشیوں کی تعداد میں سنگین اضافہنئی دہلی کے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے مطابق گزشتہ برس بھارت بھر میں شدید موسمی واقعات نے 32 لاکھ ہیکٹر (79 لاکھ ایکڑ) زرعی زمین کو متاثر کیا، جو بیلجیم سے بھی بڑا رقبہ ہے۔
اس کا 60 فیصد سے زیادہ نقصان مہاراشٹر میں ہوا۔ بھارت کے وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان کے مطابق سن 2022 سے سن 2024 کے درمیان مراٹھواڑہ میں 3,090 کسانوں نے خودکشی کی یعنی اس عرصے میں اوسطاً تقریباً تین خودکشیاں روزانہ ہوئیں۔امول کے بھائی بلاجی کھنڈکر، جو خود بھی کسان ہیں، کہتے ہیں، "گرمیاں شدید ہیں اور چاہے ہم کتنی ہی کوشش کریں، پیداوار ناکافی رہتی ہے۔
نہ تو کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی ہے اور نہ ہی بارش وقت پر ہوتی ہے۔‘‘ کسانوں کے مسائل کی جڑماہرین کے مطابق کسانوں کی خودکشیوں کی وجہ زراعت میں آمدنی، سرمایہ کاری اور پیداوار کا بحران ہے۔ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پروفیسر آر راماکمار کہتے ہیں، ''ماحولیاتی تبدیلیوں نے کسانوں کے خطرات کو بڑھا دیا ہے، جس سے فصلوں کی کم پیداوار اور غیر یقینی صورتحال بڑھ رہی ہے۔
یہ چھوٹے اور معمولی کسانوں کے لیے معاشی طور پر تباہ کن ہے۔‘‘بھارت میں کسان اب بھی صدیوں پرانے روایتی طریقہ کاشت پر انحصار کرتے ہیں، جو بڑی حد تک موزوں موسم پر منحصر ہیں۔ راماکمار کے مطابق حکومت کو شدید موسمی واقعات سے نمٹنے کے لیے بہتر بیمہ اسکیمیں اور زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔
قرضوں کا جال اور کسانغیر یقینی موسم سے نمٹنے کے لیے کسان اکثر کھادوں یا ایریگیشن سسٹمز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں لیکن بینک انہیں قرض دینے سے کتراتے ہیں۔
نتیجتاً کسان سود پر رقم فراہم کرنے والوں سے زیادہ شرح سود پر قرض لیتے ہیں، جو فصل ناکام ہونے پر ان کے لیے انتہائی مشکل کا باعث بنتا ہے۔میرابائی کے شوہر کا قرض آٹھ ہزار ڈالر سے زیادہ ہو گیا تھا، جو بھارت میں بہت بڑی رقم ہے، جہاں ایک کسان خاندان کی ماہانہ آمدنی اوسطاً صرف 120 ڈالر ہے۔ میرابائی اب دوسروں کے کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں لیکن قرض کی قسطیں ادا کرنا ناممکن ہے۔
وہ کہتی ہیں، ''کھیتی سے کچھ نہیں نکلتا۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بڑے ہو کر کوئی دوسرا کام کریں۔” ملک گیر بحرانبھارت میں زرعی شعبے کا بحران دہائیوں سے جاری ہے۔ مہاراشٹر میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے لیکن یہ مسئلہ پورے بھارت میں پھیلا ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سن 2022 میں زراعت سے وابستہ 30 افراد نے روزانہ خودکشی کی۔
مراٹھواڑہ کے ایک اور کسان شیخ عمران نے گزشتہ برس اپنے بھائی کی خودکشی کے بعد خاندانی کھیت سنبھالے۔ سویا بین کی فصل ناکام ہونے کے بعد وہ پہلے ہی 11 سو ڈالر کے مقروض ہیں۔علاقے میں پانی کی قلت اس قدر شدید ہے کہ کسان کنویں کھودنے کے لیے دھماکہ خیز مواد استعمال کر رہے ہیں۔ اس علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پینے کے لیے پانی نہیں، کھیتوں کو سیراب کرنے کا پانی کہاں سے لائیں؟
میرابائی کی طرح اب لاکھوں بھارتی کسانوں کے لیے کھیتی باڑی اب امید کی جگہ مایوسی کا استعارہ بن چکی ہے۔ میرابائی کہتی ہیں، ''ہمہارے کھیت سے اب کچھ نہیں نکلتا۔‘‘
ادارت: مریم احمد
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی کسانوں کے کے مطابق سے زیادہ کے لیے
پڑھیں:
حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کوالالمپو ر،نئی دہلی،اسلام آباد(خبر ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوگئے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ ستھ نے گزشتہ روز کوالالمپور میں اپنے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کے بعد اس پیش رفت کا اعلان کیا۔ پیٹ ہیگ ستھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بتایا کہ یہ معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیٹ ہیگ سیتھ کے مطابق معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور ٹیکنالوجی کے اشتراک میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے، جو مستقبل میں زیادہ گہرے اور مؤثر دفاعی تعلقات کی راہ ہموار کرے گا۔دونوں وزرا کے درمیان ملاقات آسیان ڈیفنس سمٹ کے دوران ہوئی، یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب امریکا نے اگست میں بھارت کی روسی تیل کی خریداری پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ان اضافی محصولات کے بعد بھارت نے امریکی دفاعی سازوسامان کی خریداری کا عمل عارضی طور پر روک دیا تھا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں دفاعی خریداری کے منصوبوں پر نظرثانی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق یہ ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی، جو ہفتہ سے شروع ہونے جا رہی ہے۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگ سیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے، ہمارا اسٹریٹجک اتحاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ و خوشحال بحیرہ ہندبحرالکاہل خطے کے عزم پر قائم ہے۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی 10 سالہ معاہدے پر دستخط کی تصدیق کی اور ہیگ ستھ کے ساتھ اپنی ملاقات کو نتیجہ خیز قرار دیا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں راج ناتھ نے کہا،کوالالمپور میں میرے امریکی ہم منصب پیٹر ہیگ سیتھ کے ساتھ ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی،ہم نے 10 سالہ امریکابھارت بڑی دفاعی شراکت داری کے فریم ورک پر دستخط کیے ہیں۔راج ناتھ سنگھ نے مزید زور دیا کہ یہ فریم ورک بھارت امریکا دفاعی تعلقات کے پورے اسپیکٹرم کو پالیسی کی سمت اہمیت فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پہلے سے مضبوط دفاعی شراکت داری میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ یہ ہمارے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک ہم آہنگی کا اشارہ ہے اور شراکت داری کے ایک نئے عشرے کا آغاز کرے گا۔ ہماری شراکت داری آزادانہ اصولوں پر مبنی ہے۔علاوہ ازیںنئی دہلی کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے بھارت کو ایران میں واقع اسٹریٹجک چاہ بہار بندرگاہ منصوبے پر امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کی چھوٹ دے دی گئی ہے، جو افغانستان جیسے خشکی میں گھرے ملک تک رسائی کا ایک اہم راستہ ہے۔ خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال نئی دہلی اور تہران نے چاہ بہار منصوبے کو ترقی دینے اور اسے جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت بھارت کو بندرگاہ کے استعمال کے لیے 10 سال کی رسائی حاصل ہوئی تاہم امریکا نے ستمبر میں ایران کے جوہری پروگرام پر دباؤ بڑھانے کے اقدامات کے تحت اس منصوبے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، امریکی قانون کے مطابق جو کمپنیاں چاہ بہار منصوبے سے وابستہ رہیں گی ان کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد کیے جا سکتے تھے اور ان کے امریکی لین دین روک دیے جاتے۔بھارت نے کہا کہ پابندیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے نئی دہلی میں صحافیوں کو بتایا کہ میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ہمیں امریکی پابندیوں سے 6 ماہ کے لیے استثنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ استثناحال ہی میں دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ اپریل 2026 تک مؤثر رہے گا۔یہ رعایت ایسے وقت میں دی گئی ہے جب پاکستان اور افغانستان حالیہ ہفتوں میں اپنی غیر مستحکم سرحد پر جھڑپوں کے بعد نازک امن بات چیت میں مصروف ہیں۔امریکا نے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے دوران چاہ بہار بندرگاہ منصوبے کو بمشکل قبول کیا تھا، کیونکہ وہ نئی دہلی کو کابل حکومت کی حمایت میں ایک قیمتی شراکت دار سمجھتا تھا، جو 2021 میں تحلیل ہو گئی تھی۔ بعد ازاں بھارت نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائی۔افغانستان کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے زد میں آنے والے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے رواں ماہ بھارت کا دورہ کیا، جس کے بعد نئی دہلی نے کابل میں اپنا سفارتی مشن دوبارہ مکمل سفارتخانے کی سطح پر بحال کر دیا۔دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ طاہر انداربی نے کہا کہ خطے پر امریکا بھارت دفاعی معاہدے کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ طاہر اندرابی نے مزید کہا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے؟ بھارت سے پوچھنا چاہیے، حقیقت بھارت کے لیے شاید بہت تلخ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لیے معنی نہیں رکھتی۔ قبل ازیںبھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔گزشتہ دنوں افغانستان میں برسراقتدار طالبان رجیم کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے وزارت توانائی کو چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر جلد از جلد ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔افغان میڈیا کے مطابق سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا تھا کہ ڈیم کیلیے ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں اور غیر ملکی کمپنیوں کا انتظار نہ کیا جائے۔اب بھارت نے چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر افغان طالبان کی جانب سے ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش کردی۔بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹس کی تعمیر میں افغانستان کی مدد کیلیے تیار ہے، دونوں ممالک میں پانی سے متعلق معاملات میں تعاون کی ایک تاریخ ہے، ہرات میں سلما ڈیم کی مثال موجود ہے۔دوسری جانب افغان طالبان نے بھارتی اعلان کا خیرمقدم کیا اور قطر میں طالبان کے سفیر سہیل شاہین نے دی ہندو سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔خیال رہے کہ دریائے کنڑ چترال سے نکلتا ہے اور تقریباً 482 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد دریائے کابل میں شامل ہو کر واپس پاکستان آتا ہے۔
خبر ایجنسی
گلزار