چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
مکہ المکرمہ (ویب ڈیسک) چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مکہ المکرمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ سے ملاقات ہوئی۔
سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مکہ المکرمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل اور تنظیم علمائے مسلمین کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے ملاقات کے دوران اتفاق کیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصفانہ عدالتی نظام کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر نئے عزم اور تعاون کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شیخ ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے مکہ مکرمہ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کا خیرمقدم کیا اور حرم پاک میں ہونے والی ملاقات میں اسلامی عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر زور دیا گیا کہ اسلامی نظام عدل آج کے دور میں بھی عدل، دیانت داری اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے ایک مستحکم اور مؤثر بنیاد فراہم کرتا ہے۔
ملاقات کے دوران دنیا بھر میں عدل و انصاف کی بنیادی اقدار کو درپیش خطرات اور انحطاط پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصفانہ عدالتی نظام کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر نئے عزم اور تعاون کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملاقات میں دونوں شخصیات نے انصاف، رواداری اور عالمی امن کے قیام کے لیے اسلامی فقہ کے اہداف اور انسانی وقار کے اصولوں پر مبنی باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس یحیی چیف جسٹس کے لیے
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔