(گزشتہ سے پیوستہ)
پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں،بلکہ قومی سلامتی،زراعت،روزگاراورانسانی بقاکاِلازم جزو ہے۔ بھارت نے پانی کی راہ روکی، اورگویایہ پیغام دیاکہ ’’جنگ کے بغیربھی جنگ کی جاسکتی ہے،میں صرف جنگ سے نہیں،پانی سے بھی تمہیں زیرکر سکتا ہوں‘‘۔ اوربھارت کی آبی جارحیت اسکی ایک مثال ہے۔یہ اقدام بظاہرسادہ،مگرحقیقتاًایک معاشی و جغرافیائی حملہ ہے۔سیزفائرکے باوجود پانی روکنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔یہ پیغام دراصل پاکستان کوغیرعسکری طریقے سے زیرکرنے کی کوشش ہے۔قطرہ جوسمندربن جائے، وہ کبھی روکانہیں جاسکتا، مگراگربندہوجائے ،تو ساری زمین پیاسی ہوجاتی ہے۔ یہ پیغام امن کے دعوے کی نفی،اورجارحیت کاعملی مظاہرہ ہے۔
بھارت نے گنگاکشن ڈیم سےپانی روک کرنہ صرف سندھ طاس معاہدے کی روح کومجروح کیا بلکہ ایک خاموش جنگ چھیڑدی۔ بھارت کی طرف سے گنگاکشن ڈیم سے دریاؤں کا پانی روکنا گویا اعلانِ جنگ کے مترادف ہے،اگرچہ الفاظ میں امن کالبادہ اوڑھ رکھاہے۔اس عمل کا مقصد پاکستان کے زرعی خطوں کوبنجربنانا،معاشی وماحولیاتی دباؤپیداکرنا،سندھ طاس معاہدے کوایک بے معنی دستاویز بنادینااس کی مکروہ منزل کاپتہ دیتی ہے۔یاد رکھیں کہ وہ جودریابہتاہے،وہ خون کی مانندہےاورجواسے روکتا ہےوہ خنجرتھامے ہوئے ہے۔ اس سے یہ بھارتی روش کاپتہ چلتاہے کہ بھارت کی عسکری تیاری اورآبی جارحیت میں مکمل مطابقت ہے۔جس ہاتھ میں میزائل ہے،اسی ہاتھ میں پانی کاکنٹرول، اوریہ دونوں خطرناک ہیں۔
1960ء میں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت سے طے پایاتھاکہ بھارت تین مشرقی دریاؤں(بیاس،راوی،ستلج)کامالک ہےاور پاکستان تین مغربی (سندھ،جہلم، چناب) کا،لیکن اب بھارت مغربی دریاؤں میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔یہ اقدام واضح طورپر پاکستان کی زرعی معیشت کونشانہ بناناہے۔یادرہے کہ دریاجو روکا جائے،توزخم صرف زمین کونہیں لگتا،قوم کی روح بھی سسکتی ہے۔پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ عالمی بینک سے فوری رابطہ کرکےاسے ملوث کیاجائے اوربھارت کی ہٹ دھرمی کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائر کیا جائے۔اقوام متحدہ میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے ان کوبتایاجائے کہ یہ پاکستان کی حیات وموت کاسوال ہے اوراس پرکسی بھی قسم کے انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی اوراس عمل پرپاکستان اپنافوری ردعمل کااظہار کرنےکاپابند ہے۔علاوہ ازیں فوری طورپرنئے متبادل آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کی جائے اورکالاڈیم کی مخالفت کرنے والوں کی بھی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ انہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اپنے علاقوں کی زرعی ترقی پرکس ظالمانہ طریقے سے کاری وارکئے ہیں۔
جنوبی ایشیا،خصوصاًپاکستان،پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے شدیدخطرے کا سامنا کر رہا ہے، مگرحالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندردہشتگردانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی رانہ صرف پاکستان کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندگروپوں کی مالی اورعسکری معاونت بھی کررہی ہے۔اس کا مقصدپاکستان کواندرونی طورپرغیرمستحکم کرنا ہے۔ بھارت بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بدامنی کو ہوا دے رہاہے۔بھارتی پراکسیزکی کارروائیوں میں معصوم شہریوں اور سکولوں کے بچوں پرحملے، مساجد، مارکیٹوں اورریل گاڑیوں کونشانہ بنایاگیا ہے۔حالیہ واقعہ جعفرایکسپریس پرحملہ بھی انڈین دہشت گردی کا شاخسانہ ہے،جس میں متعددبے گناہ مسافر شہید ہوئے۔یہ واقعہ ریاستی دہشت گردی کی ایک سفاک مثال ہے،جس میں عام شہریوں کو دانستہ نشانہ بنایاگیا۔
پاکستان نے متعددبارعالمی اداروں کے سامنے یہ شواہدرکھے کہ بھارت کس طرح سے علیحدگی پسند تنظیموں کواسلحہ،رقم،اور تربیت فراہم کررہاہے۔ بھارتی نیوی کے حاضرسروس افسر کل بھوشن یادیوکی گرفتاری اس ریاستی مداخلت کاواضح ثبوت ہے۔یادیو نے اعتراف کیاکہ وہ ایران کے راستے بلوچستان آیااورمختلف گروپوں کومسلح بغاوت پراکسارہاتھا۔ابھی حال ہی میں ایک مرتبہ پھرانڈین’’را‘‘کی سازش کے تحت بلوچستان کی بس میں شہیدہونے والے چھ معصوم بچے دنیاکے ضمیرپرایک سوالیہ نشان ہیں۔ معصوم بچوں کی شہادت ایک ایسازخم ہے جوصرف ایک علاقے کانہیں،پوری انسانیت کا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے عالمی میڈیاکے سامنے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے، جن میں گرفتاردہشت گردوں کے اعترافی بیانات، اسلحہ،نقشے، بھارتی کرنسی،اوردیگر موادشامل ہیں۔ یہ ثبوت اقوام متحدہ سمیت دیگرعالمی اداروں کوبھی فراہم کئے جاچکے ہیں۔پاکستان نے جوشواہدپیش کیے،وہ محض الزامات نہیں،حقائق کی وہ شمعیں ہیں جوظلم کی تاریکی کوچیرسکتی ہیں۔اب امریکااور برطانیہ کی غیر جانبداری کا امتحان ہے۔
پاکستان نے جوشواہدعالمی برادری کوپیش کئے، ان پراب تذبذب نہیں،اقدام کی ضرورت ہے۔اگر اقوامِ عالم اب بھی خاموش ہیں تویہ خاموشی مجرمانہ ہے۔بلوچستان میں بین الاقوامی قوانین کی روح اس بات کی متقاضی ہے کہ سٹیٹ اسپانسرڈ ٹیررزم کے خلاف فوری اورمؤثراقدامات کیے جائیں۔بھارت کی پراکسیزکے ذریعے اندرونی عدم استحکام کی کوششیں عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔اقوامِ متحدہ کی خاموشی ایک مجرمانہ چشم پوشی بن چکی ہے۔امریکااور برطانیہ،جوسیزفائرکے داعی ہیں، اگربھارت کے خلاف کوئی مؤثرقدم نہیں اٹھاتے توان کی غیرجانبداری پرسوالیہ نشان اور انصاف ایک عالمی مذاق بن جائے گا۔بھارت کی دہشتگردانہ سازشیں محض عسکری نوعیت کی نہیں بلکہ ایک منظم ہائبرڈ وارہے جس میں میڈیا پروپیگنڈہ، سائبرحملے، معاشی دبا، سفارتی محاذپرپاکستان کوتنہا کرنے کی کوشش شامل ہیں۔اس کا مقصدپاکستان کوعالمی سطح پرکمزورکرنااوراندرونی خلفشار پیداکرنا ہے۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے بھارت کی
پڑھیں:
بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے جمعرات کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام نے سینکڑوں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش جانے پر مجبور کیا ہے۔ ادارے نے بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت پر سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے بنگلہ دیشی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات مئی سے 15جون کے درمیان کم از کم 1,500 مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو سرحد پار زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو مارا پیٹا گیا اور ان کی بھارتی شناختی دستاویزات بھی تباہ کر دی گئیں۔
بھارت نے "بنگلہ دیش" کے غیر قانونی تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کی بات تو تسلیم کی ہے، تاہم حکومت نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں کہ وہ اب تک ایسے کتنے لوگوں کو بنگلہ دیش بھیج چکا ہے۔
(جاری ہے)
ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا، "بھارت کی حکمران بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) بھارتی شہریوں سمیت بنگالی مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر نکال کر امتیازی سلوک کو ہوا دے رہی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں بھارتی حکومت ہزاروں کمزور لوگوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لیکن ان کے اقدامات مسلمانوں کے خلاف وسیع تر امتیازی پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔
" دراندازوں کے خلاف مودی کی جدوجہدبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے طویل عرصے سے بے قاعدہ ہجرت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ انتخابات کے دوران اپنی عوامی تقریروں میں وہ اکثر بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور انہیں "درانداز" کہتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاکت خیز پہلگام حملے کے فوراً بعد، وزارت داخلہ نے مئی میں ہی ریاستوں کو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے 30 دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ ایسے تمام افراد کو نکالنے کا عمل غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
البتہ تازہ رپورٹ میں ایسی تیز ترین کارروائیوں پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ حکومت کی وجہ "ناقابل یقین" ہے، کیونکہ اس نے "کام کے مناسب حقوق، گھریلو ضمانتوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات" کو نظر انداز کیا ہے۔
پیئرسن نے کہا، "حکومت مظلوموں کو پناہ دینے کی بھارت کی طویل تاریخ کو کم تر کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"
مئی میں بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکام نے تقریباً 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی حراست میں لیا اور بحریہ کے جہازوں کے ذریعے بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے اسے "خوبصورتی سے تیار کی گئی ایک کہانی" قرار دیا ہے، تاہم مودی حکومت نے ابھی تک عوامی طور پر ان الزامات کی تردید نہیں کی ہے۔
مسلمان مہاجر مزدوروں کو نشانہ بنایا گیاایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو ڈی پورٹ کیے جانے والوں میں سے کچھ تو بنگلہ دیشی شہری تھے، تاہم بہت سے وہ بھارتی شہری بھی ہیں، جو بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی پڑوسی ریاستوں کے بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اس لیے ممکن ہوا، کیونکہ حکام نے نکالنے سے پہلے ایسے متاثرہ افراد کی شہریت کی تصدیق سمیت کسی ضابطے پر عمل کیے بغیر انہیں تیزی سے ملک بدر کر دیا۔
نکالے گئے ایسے افراد میں سے 300 لوگ مشرقی ریاست آسام سے ہیں، جہاں متنازعہ شہریت کی تصدیق کا عمل نافذ کیا گیا ہے۔ دوسرے بنگالی بولنے والے مسلمان وہ ہیں، جو بھارتی ریاست مغربی بنگال سے کام کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش، اوڈیشہ اور دہلی ہجرت کر کے آئے تھے۔
بھارت میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، ہندو قوم پرست تحریک کی خصوصیت ہے جس کی قیادت مودی کی جماعت بی جے پی اور اس سے متعلقہ گروہوں نے کی ہے۔
بنگلہ دیشی امیگریشن کے اس مسئلے کے اب بھاتی ریاست مغربی بنگال میں بھی مرکزی اہمیت حاصل کرنے کا امکان ہے، جہاں بی جے پی جیتنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں 2026 میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ 'ہمیں لگا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے'ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس نے ایک درجن سے زیادہ ایسے متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کا انٹرویو کیا ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو بنگلہ دیش سے بے دخل کیے جانے کے بعد بھارت دوبارہ واپس آئے ہیں۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک تارکین وطن کارکن ناظم الدین شیخ جو پانچ سال سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، پھر ان کی بھارتی شہریت ثابت کرنے والے ان کی شناختی دستاویزات کو پھاڑ دیا اور پھر انہیں 100 سے زائد دیگر افراد کے ساتھ سرحد پار بنگلہ دیش لے گئے۔
انہوں نے کہا، "اگر ہم بہت زیادہ بولتے تو وہ ہمیں مارتے تھے۔
انہوں نے مجھے میری پیٹھ اور ہاتھوں پر لاٹھیاں ماریں۔ وہ ہمیں مار رہے تھے اور ہم سے کہہ رہے تھے کہ تم یہی کہتے رہو کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں۔"آسام کے ایک اور کارکن نے اسی طرح کی اپنی آزمائش کو یاد کرتے ہوئے کہا، "میں ایک لاش کی طرح بنگلہ دیش میں چلا گیا۔ چونکہ ان کے پاس بندوقیں تھیں، اس لیے میں نے سوچا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرے خاندان میں سے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔"
صلاح الدین زین (مہیما کپور)
ادارت: جاوید اختر