کویت نے پاکستانیوں کے ویزے پر عائد پابندی ختم کردی، ہزاروں نوکریاں منتظر
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
کویت نے پاکستانیوں کے ویزے پر عائد پابندی ختم کردی، ہزاروں نوکریاں منتظر WhatsAppFacebookTwitter 0 10 June, 2025 سب نیوز
خلیجی ریاست کویت نے پاکستانی شہریوں پر 19 سال سے عائد ویزہ پابندی ختم کر دی ہے، جس کے بعد پاکستان کے لیے ملازمت، تجارت، سیاحت اور خاندانی دوروں سمیت مختلف شعبوں میں نئے مواقع کھل گئے ہیں۔ اس اہم فیصلے سے خاص طور پر صحت، تیل، اور ہنر مند مزدوروں کے شعبوں میں ہزاروں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں۔
اس فیصلے کے تحت پاکستانی شہری اب کام، فیملی ویزٹ، سیاحتی، کمرشل اور ڈیپنڈنٹ ویزوں کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر 1200 نرسز کی بھرتی کا عمل شروع کیا جا چکا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کویت پاکستانی ہنرمندوں سے اپنی افرادی قوت کو تقویت دینے کے لیے سنجیدہ ہے۔
ایک نئے دور کا آغاز
کویت کے اس فیصلے کو پاکستان اور کویت کے درمیان اقتصادی اشتراک، محنت کشوں کی نقل و حرکت، اور عوامی سطح پر رابطوں کے ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ اقدام پاکستان کے بہتر سیکیورٹی حالات پر کویت کے اعتماد اور دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا مظہر ہے۔
پاکستان کے لیے کیا فوائد ہوں گے؟
ہزاروں ہنرمند پاکستانیوں کو اب صحت اور تیل کے شعبوں میں دوبارہ کام کے مواقع میسر ہوں گے۔ اسکے علاوہ پاکستانی تاجر، سرمایہ کار، اور کاروباری حضرات کو معاشی مواقع ملیں گے اور کویتی منڈی تک رسائی حاصل ہوگی۔ اسکے ساتھ ہی عوامی روابط استوار ہونگے اور خاندانی ملاقاتوں، سیاحت اور ثقافتی تبادلوں کو بھی فروغ ملے گا۔
پاکستانی محنت کشوں کے تحفظ کے لیے ایک نئی لیبر مفاہمتی یادداشت (MoU) بھی زیر غور ہے، جو ملازمت کے مواقع کو منظم اور محفوظ بنانے میں مدد دے گا۔ یہ معاہدہ مزدوروں کے حقوق کو یقینی بنائے گا اور ایک شفاف فریم ورک فراہم کرے گا۔
تمام ویزہ درخواستیں اب کویت کے آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے دی جا سکتی ہیں، جس سے درخواست دینے کا عمل نہایت آسان اور تیز ہو گیا ہے۔
سفارتی ردعمل
کویت میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر ظفر اقبال نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ، ’یہ پاکستان اور کویت کے تعلقات میں ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ ویزہ پابندی کے خاتمے سے نہ صرف کویت کی لیبر مارکیٹ کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ پاکستان میں ہزاروں خاندانوں کو روزگار اور معاشی بہتری کے مواقع ملیں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآئندہ مالی سال کا 17 ہزار 600 ارب روپے کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا عباس آفریدی گیس لیکج دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوا، بیٹے کو قتل کیا گیا، سابق سینٹر شمیم آفریدی پاکستان کے حلوہ پوری اورسری پائے دنیا کے 100 بہترین ناشتوں کی فہرست میں شامل امریکا میں بھارتی سفارت خانے کے سامنے سکھوں اور کشمیریوں کا احتجاجی مظاہرہ اسرائیل کی جوہری تنصیبات سے متعلق حساس دستاویزات ایران کے ہاتھ لگ گئیں، جلد جاری کرنے کا اعلان ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف جاری مظاہرے پرتشدد ہوگئے، لاس اینجلس میں گاڑیوں کو آگ لگادی گئی پنجاب میں نان رجسٹرڈ ریسٹورنٹ اور شادی ہالوں کی رجسٹریشن کا فیصلہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔