How to Train Your Dragon کے لائیو ورژن میں کیا اچھا ہے اور کیا نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
سویڈن کی مشہور فلم ‘How to Train Your Dragon’ کا لائیو ایکشن ورژن 13 جون کو ریلیز ہو رہا ہے، لیکن اس کا جائزہ دیکھنے والوں میں ملا جلا تاثرات چھوڑ گیا ہے۔
نیو یارک پوسٹ کے مطابق یہ فلم ویژوئل طور پر شاندار اور جذباتی لمحات کے باعث کافی دلکش محسوس ہوتی ہے، خاص طور پر نوجوان ہیرو ہک اپ (Mason Thames) اور اس کے زخم خوردہ ڈریگن ٹوتھلیس کے رشتے کی تصویر کشی بہت مؤثر ہے۔
دیگر تنقید نگاروں کا ماننا ہے کہ لائیو ایکشن کی وجہ سے اینیمیشن میں موجود وہ جادوی کشش اور بے ساختگی کہیں ضائع ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:معروف گلوکار عادل خان نے چینی اینیمیٹد فلم ’نیژا 2‘ کے حوالے سے گانا ریلیز کردیا
ڈائریکٹر ڈین ڈیبلوئس نے چیلنج قبول کیا، مگر ہاتھوں کی حقیقتی تصویر اس میں جادوئی فطرت جگانے میں ناکام رہی۔ ویژوئل ایفیکٹس معمولی ہوتے ہوئے بھی بامعنی دکھائی دیتے ہیں، تاہم وہاں جہاں اینیمیشن میں ہنسی مذاق اپنے عروج پر ہوتا تھا، وہی سین کمزور پڑ گئے ہیں۔
اس فلم میں جو مقامات تابناک ہیں وہ ایئر کلاسز ہیں۔ جب ہک اپ اور ٹوتھلیس آسمان میں دوڑتے ہیں تو جان پاؤل کی موسیقی کے ساتھ اس فضا میں شامل حسی کیفیت حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب ویژوئل میں جدت کم ہوتی ہے، تو ہیروز کے بالغ کردار، جیسے کہ اسٹوئک کا کردار (Gerard Butler، اور ان کے ڈائیلاگ معمولی اور مختلف نہیں لگتے، جس سے مرکزی کردار کے جذباتی اثر میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
کُل بات یہ ہے کہ ‘How to Train Your Dragon’ کا لائیو ایکشن ورژن دیکھنے کے لیے قابلِ قبول ہے، اگر آپ نے بچپن کی اس کہانی کو دوبارہ زندہ دیکھنا ہو، مگر یہ وہ جادوی پرواز یا منزل کی پرواز پوری طرح سے نہیں پہنچاتا۔
یہ بھی پڑھیں:بالی ووڈ فلم کے پوسٹر سے نام ہٹانے پر ماہرہ خان کا ردعمل آگیا
تنقید نگاروں کے مطابق فلم مڈل کلاس میں رہتی ہے، اس میں خوبصورت مناظر ہیں، مگر اصلی دل کشی اینیمیشن کی طرح کی نہیں رہی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
How to Train Your Dragon ڈریگون لائیو ایکشن ورژن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈریگون لائیو ایکشن ورژن لائیو ایکشن
پڑھیں:
قافلہ جو تیونس سے چلا ہے
وہ قافلہ تیونس سے چلا ہے مگر اُس کے قدموں کی دھمک نیویارک سے لے کر تل ابیب تک سنائی دے رہی ہے۔ یہ قافلہ نہ صرف غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ ہمارے زمانے کی مردہ ضمیری منافقت اور عالمی طاقتوں کے چہرے سے نقاب بھی نوچ رہا ہے۔ اس میں شامل نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بزرگ، خواتین طالب علم، ماہی گیر، کسان، مزدور اور وہ سب جو اپنی آوازوں کو زنجیروں میں جکڑا سمجھتے تھے اب ایک نعرہ بن چکے ہیں۔
’’ فلسطین کو آزاد کرو۔‘‘یہ قافلہ محض لوگوں کی ایک صف نہیں یہ قافلہ ایک تاریخ ہے۔ یہ ان خوابوں کا قافلہ ہے جو صدیوں سے قتل کیے جا رہے ہیں۔ یہ قافلہ اُن بچوں کے لیے نکلا ہے جن کی آنکھوں میں نیند کی جگہ خوف ہے، تھکی ہوئی جاگی ہوئی آنکھیں، خواب سے محروم آنکھیں۔ یہ قافلہ ان بیٹیوں کے لیے ہے جنھیں رخصت ہونے سے پہلے باپ کی لاش دفنانا پڑی اور یہ قافلہ اُن ماؤں کے لیے ہے جنھوں نے دودھ کے بجائے اپنے بچوں کو صبر پلایا۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں گریٹا تھنبرگ کے بارے میں لکھا تھا، اس کو اور اس کے ساتھ موجود دیگر activists کو 8 جون کو اسرائیل نے روک لیا تھا۔ یہ کشتی امداد لے کر نکلی تھی۔ یہ بچی جو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کھڑی ہوئی تھی، وہ آج فلسطین کے لیے کھڑی ہے اور اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے لوگ فلسطین کے لیے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔
آج ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں مظلوموں کی صف میں صرف مسلمان نہیں، صرف عرب نہیں بلکہ یہودی بھی شامل ہیں۔ وہ یہودی جو اسرائیل میں رہتے ہیں مگر جنھوں نے صیہونیت کے نام پر ہونے والی بربریت سے اپنا دامن الگ کیا ہے۔ تل ابیب میں مظاہرے ہو رہے ہیں ’’ ناٹ ان مائی نیم‘‘ Not In My Name کے پلے کارڈز تھامے نوجوان یہودی کھڑے ہیں اور وہ اعلان کر رہے ہیں کہ ظلم خواہ کسی بھی عقیدے یا قوم کے نام پر ہو ظلم ہی رہتا ہے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں، ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے بعض بزرگ یہودی برسوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہمیں جس دکھ سے گزرنا پڑا ہم یہ نہیں چاہتے کہ وہی دکھ کسی اور پر مسلط کیا جائے۔‘‘ اب یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اب وہ وقت نہیں جب ان آوازوں کو آسانی سے دبا دیا جاتا تھا۔ اب سوشل میڈیا کی طاقت، عوامی شعور اور عالمی ضمیر نے چاہے دیر سے سہی مگر انگڑائی ضرور لی ہے۔
قافلے کی یہ روانی یہ جذبہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب عوام کھڑے ہوجائیں تو دنیا کی سب سے بڑی فوجیں سب سے مضبوط میڈیا ادارے اور سب سے مالدار کارپوریشنز بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ویتنام میں کیا ہوا تھا؟ کیا آپ کو جنوبی افریقہ کی نسل پرستی یاد ہے؟ ہر جگہ جب عوام نے مزاحمت کی جب دیوار پر پہلا پتھر مارا گیا تو وہی دیوار آخرکار گری۔
آج اسرائیل کی دیوارِ ظلم لرز رہی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انسانیت کا ماتم ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس ماتم سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور وہ آوازیں رُکنے والی نہیں۔ وہ عرب دنیا جو برسوں تک خاموش تماشائی بنی رہی اب وہاں کی گلیوں میں نعرے گونج رہے ہیں۔ تیونس الجزائر، لبنان، اردن ہر طرف عوام سڑکوں پر ہیں اور یہ عوام وہی ہیں جنھیں ان کے آمروں بادشاہوں اور استعماری تابعداری کے عادی حکمرانوں نے خاموش رکھا تھا۔
یہ تحریک صرف مشرق تک محدود نہیں۔ امریکا میں برطانیہ میں فرانس میں جرمنی میں اور دوسرے یورپی ممالک میں لاکھوں لوگ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے نکل رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے طلبا اپنے تعلیمی کیمپس کو احتجاجی میدان بنا چکے ہیں۔ امریکی طلبا نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ جب دل میں سچائی ہو اور آنکھوں میں خواب ہوں تو ہاتھوں میں ہتھیار نہیں صرف پوسٹرز اور نعرے بھی دنیا ہلا سکتے ہیں۔
یہ وقت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور جنگوں سے نہیں بنتی تاریخ عوام سے بنتی ہے۔ جب عوام اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں جب وہ اپنے دکھوں اور محرومی سے حوصلہ پائیں جب وہ اپنی محرومیوں کو طاقت میں بدل دیں تو وہ سامراج کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ اور آج یہی ہو رہا ہے وہ ظلم جسے میڈیا نے دفاعی کارروائی کہہ کر چھپایا اب اُس کی حقیقت بچے بچے پر عیاں ہو چکی ہے۔
صیہونیت اب ایک نظریے سے زیادہ ایک جرم بن چکی ہے۔ وہ جرم جو مذہب نسل، زمین اور طاقت کے نام پر کیا جا رہا ہے، مگر اُس کے مقابل ایک اور طاقت اُبھر رہی ہے عوام کی طاقت۔ اور عوام کی طاقت میں نہ نسل دیکھی جاتی ہے نہ مذہب، نہ قوم عوام کی طاقت کا صرف ایک اصول ہوتا ہے انصاف اور یہی انصاف اب صیہونیت کے محلات کو لرزا رہا ہے۔ یہ وقت ان حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے جو اب بھی سامراجی اتحاد میں اپنے مفاد تلاش کر رہے ہیں۔ جو اب بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت اور دفاعی معاہدوں کو قومی مفاد کا نام دیتے ہیں۔ وہ سمجھ لیں کہ عوام اب جاگ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ کون ظالم ہے؟ کون مظلوم وہ جان چکے ہیں کہ آزادی صرف ایک نعرہ نہیں ایک حق ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ اب ہماری جدوجہد ہے، دنیا کے ہر باشعور انسان کی جدوجہد ہے۔ ہم اُس لمحے میں زندہ ہیں جہاں ہم چاہیں تو اس ظلم کو روک سکتے ہیں اور اگر خاموش رہیں تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وہ قافلہ جو تیونس سے چلا ہے اُسے آپ روک نہیں سکتے، کیونکہ اُس کے قدموں کے نیچے صدیوں کی محرومیاں ہیں، اُس کے نعروں میں وہ درد ہے جسے دنیا نے نظر انداز کیا اور اُن کے دلوں میں وہ عزم ہے جو پہاڑوں کو بھی ہلا دے۔
ہم جانتے ہیں کہ ظلم کے دن گنے جا چکے ہیں اور جب عوام اُٹھ کھڑے ہوں تو کوئی طاقت انھیں روک نہیں سکتی، یہی وقت ہے جب ہمیں اپنے قلم اپنی زبان اور اپنی موجودگی کو اس جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہے کیونکہ یہ جنگ صرف فلسطین کی نہیں، انسانیت کی جنگ ہے۔
یہ قافلہ جو بسوں اور گاڑیوں کی صورت میں تیونس سے نکلا ہے، اس میں مصر اور لیبیا سے بھی لوگ شامل ہو رہے ہیں اور ان کی مانگ یہ ہے کہ غزہ تک امداد کو پہنچنے دیا جائے۔ جس طرح سے بھی ممکن ہو اپنا احتجاج اور اپنا ساتھ ہمیں فلسطین کے ساتھ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔