بجٹ 26-2025: کس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ مستفید ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نئے مالی سال 26-2025 کا 17 ہزار 573 ارب روپے سے زائد حجم کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ بجٹ پر ملا جلا رجحان پایا جا رہا ہے، کوئی اس سے خوش ہے تو کوئی ناراض۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ 26-2025: سولر پینلز پر کتنے فیصد جی ایس ٹی تجویز ہوا؟
تنخواہ دار طبقہ اور ریئل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے افراد قدر خوش نظر آ رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ جو حکومت نے بجٹ تجاویز پیش کی ہیں وہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کتنی مفید ثابت ہونگی؟
اس حوالے سے جاننے کے لیے وی نیوز نے معاشی ماہرین سے بات کرکے جاننے کی کوشش کی کہ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں بجٹ کی تجاویز عوام اور معیشت کے لیے کتنی فائدہ مند ہوں گی۔
معاشی ماہر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ اس سے زیادہ سخت بجٹ کی توقع کی جا رہی تھی تاہم موجودہ بجٹ نسبتاً بہتر رہا۔ اس بہتری کا بڑا کریڈٹ شرح سود میں کمی کو جاتا ہے جو کہ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ چکی ہے۔ اس کمی کی بدولت حکومت کو 8 سے 9 ارب روپے کا ریلیف حاصل ہوا جس کے نتیجے میں وہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہونے کے باوجود عوام کو کچھ سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ان سہولیات میں تنخواہ دار طبقے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشنز میں اضافہ اور زرعی شعبے کے لیے مراعات شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: بجٹ 26-2025: پراپرٹی کی خریداری و فروخت پر عائد ٹیکسز میں بڑی کمی
عابد سلہری نے واضح کیا کہ زرعی شعبے میں، خاص طور پر فرٹیلائزر پر سیلز ٹیکس میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے۔ حکومت کو کمرشل بینکوں کو سود کی ادائیگی میں جو کمی آئی، اس نے حکومت کو مالی لحاظ سے کچھ آسانی دی۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال میں گزشتہ برس کی نسبت اپنے اخراجات میں کمی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خزانہ بجٹ میں بارہا ساختی اصلاحات اور معیشت کے ’ڈی این اے‘ میں تبدیلی کی بات کرتے نظر آئے، مگر عملی طور پر ایسی کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ بعض اعلانات، جیسے کہ صوبوں سے زرعی ٹیکس کی وصولی، بظاہر ممکن دکھائی دیتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔
عابد سلہری کے مطابق حالیہ اقتصادی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے دو اہم شعبے زرعت اور بڑے پیمانے کی مینیوفیکچرنگ قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ بجٹ میں بھی ان دونوں شعبوں کے لیے کوئی خاص اقدام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ زراعت صوبائی دائرہ اختیار میں آتی ہے لیکن یہ نہ صرف معیشت بلکہ فوڈ سیکیورٹی کا بھی مسئلہ ہے اس لیے دیکھنا ہوگا کہ صوبے اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عابد سلہری نے بجٹ کی بعض تجاویز سے اختلاف کا اظہار بھی کیا، جیسے کہ سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد جی ایس ٹی اور بینک سیونگز پر ٹیکس کو 15 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر خزانہ واقعی فوسل فیولز کی حوصلہ شکنی چاہتے ہیں تو سولر پینلز پر درآمدی ڈیوٹی عائد نہیں کی جانی چاہیے تھی لیکن چونکہ حکومت کو انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو سرکلر ڈیٹ اور کپیسیٹی پیمنٹس دینا پڑتی ہیں، اس لیے وہ دانستہ طور پر سولر انرجی کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے جو کہ بجٹ میں تضاد کی ایک بڑی مثال ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ میں کھانے پینے کی کون سی اشیا سستی کی جا رہی ہیں؟
اسی طرح جب نان فائلرز کے خلاف سختی کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی کرنے پر زیادہ ٹیکس لگے گا، تو یہ بھی ایک تضاد ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں کتنے لوگ ہیں جن کے پاس کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ہے اور کتنے دکاندار ہیں جن کے پاس یہ کارڈ قبول کرنے کی سہولت موجود ہے؟ اگر کسی پیٹرول پمپ پر مشین نہ ہو تو صارف کیا کر سکتا ہے؟ مثال کے طور پر، گلیات جیسے علاقوں میں اکثر دکاندار یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ ان کے پاس کارڈ مشین موجود نہیں۔ یہ عملی مسائل ہیں جنہیں مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا موجودہ بجٹ آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے اور اس سے کسی بڑے ریلیف کی نہ توقع تھی اور نہ ہی اس میں ایسا کوئی پہلو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ بجٹ ایک ’استحکام کا بجٹ‘ ہے، نہ کہ ترقیاتی بجٹ۔ اس میں سب سے نمایاں اور اہم پہلو یہ ہے کہ سب سے بڑا ریلیف تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ہے۔
تنخواہ دار طبقے کی جانب سے دی جانے والی ٹیکسیشن اب 600 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جو انکم ٹیکس کے سب سے بڑے سلیب میں شامل ہے۔ حیران کن طور پر بزنس مین، فیکٹری مالکان، لگژری گاڑیاں رکھنے والے اور بڑے محلات میں رہنے والے افراد بھی اس سطح کا ٹیکس نہیں دیتے۔ اس کے برعکس تنخواہ دار طبقہ شفاف انداز میں ٹیکس دیتا ہے جو ہمارے نظام کی ناہمواری کی ایک واضح مثال ہے۔
راجہ کامران نے کہا کہ یہ صورتحال اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ ملک میں ٹیکس کی بڑے پیمانے پر چوری ہو رہی ہے۔ اگر ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح، یا زراعت، خدمات، صنعت اور دیگر شعبوں کے جی ڈی پی میں حصے کو دیکھیں، تو واضح گیپ نظر آتا ہے، جسے ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
اس بجٹ کا مرکزی فوکس ٹیکسیشن کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہے۔ سابقہ بجٹ کی طرح اس بار بھی ’پرائمری سرپلس‘ پر زور دیا گیا ہے یعنی حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں توازن برقرار رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کتنا ریلیف دیے جانے کی تجویز؟
راجہ کامران نے مزید کہا کہ جب سے بجٹ میں صوبوں کا حصہ بڑھا ہے، وفاق کی مالیاتی پوزیشن کمزور ہو گئی ہے، کیونکہ مجموعی ٹیکس آمدنی کا بڑا حصہ صوبوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے صوبے وہ ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے جو انہیں کرنی چاہییں۔ پنجاب میں کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن باقی صوبوں میں ترقی کی رفتار خاصی سست ہے۔
اسی تناظر میں، وفاق نے اپنی غیر ٹیکس آمدنی (non-tax revenue) کو بڑھانے کی کوشش کی ہے، مثلاً پیٹرولیم لیوی کو 100 فیصد تک بڑھایا جا رہا ہے جو اب حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
بجٹ میں آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جس سے بھی حکومتی آمدنی میں اضافہ متوقع ہے۔ گھروں پر پہلے سے عائد جی ایس ٹی برقرار رکھا گیا ہے جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت پر عائد کچھ پابندیاں کم کی گئی ہیں تاکہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں دوبارہ بہتری آ سکے۔
مزید پڑھیں: بجٹ میں گاڑیوں پر درآمدی اور سی کے ڈی کٹس میں ڈیوٹی کتنے فیصد کم ہوئی؟
حکومت نے گزشتہ کئی برسوں سے جاری نان فائلر کیٹیگری کو اس بجٹ میں ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ نان فائلر افراد، جن کے بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اگر وہ رقم نکلوانا چاہیں تو ان پر عائد ٹیکس کی شرح 6 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ اب نان فائلرز نہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں، نہ ہی گھر، جب تک وہ ٹیکس فائل نہیں کرتے۔ اس طرح حکومت نے نان فائلرز کے گرد دائرہ مزید تنگ کر دیا ہے تاکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جا سکے اور معیشت میں شفافیت آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجٹ 2025-26 بجٹ ریلیف بجٹ سے کون خوش بجٹ کا فائدہ کس کو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بجٹ ریلیف بجٹ سے کون خوش بجٹ کا فائدہ کس کو تنخواہ دار طبقے رکھنے والے عابد سلہری والے افراد حکومت کو حکومت نے کہ حکومت حکومت کی کہا کہ کے لیے گیا ہے بجٹ کی
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔