اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت کی اقتصادی حکمت عملی اور نئے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت کی اولین ترجیح برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہے اور اس مقصد کے لیے ٹیرف اصلاحات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ حکومت نے 4 ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی ہے جبکہ مزید 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، جن میں سے 2 ہزار ٹیرف لائنز براہ راست خام مال سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے نتیجے میں برآمدکنندگان کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اخراجات میں کمی آنے سے وہ مسابقت کے قابل ہوں گے اور زیادہ برآمدات کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف اصلاحات ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ پہلے سال کے اعداد وشمار ہیں، آئندہ سالوں میں ٹیرف میں کٹوتی کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور ٹیرف کے پورے نظام میں مجموعی طور پر چار فیصد کمی کی جائے گی، اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30 سال میں نہیں کی گئیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگا دیں، اس حوالے سے قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔

تنخواہ دار طبقے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ انہیں ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں ٹرانزیکشن کاسٹ کم کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل ٹیکس زرعی شعبے پر نہ لگانے پر بورڈ سے بات کی گئی، چھوٹے کسانوں کے لیے قرضے دیے جائیں گے۔ کھاد پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ زیر غور تھا مگر کسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ختم کر دیا گیا۔

محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ سپر ٹیکس میں بتدریج کمی کا آغاز کر دیا گیا ہے، اور چھوٹے کسانوں کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ زراعت کو مستحکم بنایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ اضافی ٹیکسز مجبوری کے تحت لگانے پڑے کیونکہ مالیاتی گنجائش محدود ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں سے متعلق وزیر خزانہ نے شکوہ کیا کہ وہ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ ممکن ہے، قوانین بھی موجود ہیں، قانون سازی بھی ہورہی ہے، ٹیکسز بھی موجود ہیں لیکن ہم انہیں نافذ نہیں کر پارہے تھے، اس سال ہم نے جو ٹیکسز کا نفاذ کیا ہے کہ وہ 400 ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہیں اور ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال ٹیکسز کے مقابلے میں جی ڈی پی کی شرح 10.

3 فیصد ہے جو کہ اگلے انشاءاللہ سال 10.9 فیصد ہوگی، 22 کھرب کی جو بات کی گئی ہے اس میں سے اضافی ٹیکسز صرف 312 ارب روپے ہیں، اس بارے میں سوچیں کہ 22 کھرب میں صرف 312 ارب کے اضافی ٹیکسز ہیں اور باقی خود کار نمو اور نفاذ کا پہلو ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اب ہم قانون سازی کی طرف جائیں گے اور دونوں ایوانوں سے بات کریں گے، ٹیکسز کے نفاذ کے لیے قانون میں ترمیم کریں گے کیونکہ اگر ٹیکسز کا نفاذ نہیں کرسکے تو ہمیں 400 سے 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنا پڑیں گے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمان سے ہماری یہی گزارش ہوگی کہ وہ ٹیکسز کے نفاذ کے لیے درکار قانون سازی اور ترامیم مہیا کریں تاکہ ہمیں اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں اور نظام میں لیکیج کو روکا جاسکے۔

پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت نے جہاں ممکن ہو سکا ریلیف دیا ہے، مگر مالی حقائق اور زمینی حالات کے مطابق فیصلے کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دیا، وزیراعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں۔ پینشن اور تنخواہوں کو منہگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے۔ تنخواہوں اور پنشن کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے۔ مہنگائی نیچے آرہی ہے، اسی تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے 7 فیصد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے ہم مالی گنجائش کے حساب سے ہی آگے جاسکتے ہیں، یہ سفر کی سمت کا تعین کرتا ہے کہ ہم تنخواہ دار طبقے کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں، ہائر کلاس سمیت تنخواہ دار طبقے کو مختلف سلیبز میں تقسیم کیا ہے۔

وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں اضافے کے سوال پر محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیںہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم مڈ سائز کارپوریٹ سے شروع ہوئے ہیں اور ان کے سپر ٹیکس میں کمی شروع کی ہے چاہے وہ 0.5 فیصد ہی کیوں نہ ہو، یہ اہم سگنل ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے ٹرانزیکشن کاسٹ کو کم کیا جائے، بیچنے والا تو پھر نفع کماتا ہے لیکن خریدار کو ریلیف ملنا چاہیے، اس لیے خریداروں کے لیے ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی گئی ہے، اسی طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بھی ختم کیا گیا ہے تو اس میں ٹرانزیکشن کاسٹ میں کمی کی بات کی گئی ہے۔

وزیرخزانہ نے زرعی شعبے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اس سال ہم نے کھاد اور زرعی ادویہ پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا، یہ اسٹرکچرل بینچ مارک تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکس چھوٹ کے جتنے نظام ہیں انہیں ختم کیا جائے، مگر وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق ہم نے آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس نہ لگانے پر قائل کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پر دباؤ آتا ہے اور یہ بات درست ہے کہ جب ٹیکسز میں اضافہ کیا جارہا ہے تو حکومتی اخراجات کیوں کم نہیں ہو رہے اور یہ جائز دباؤ ہے، اس مرتبہ حکومتی اخراجات میں 1.9 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اس کا کریڈٹ سیکریٹری خزانہ کو جاتا ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ٹیکس دینے والا تنخواہ دار طبقہ جو یہ اعتراض کرتا تھا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات کیوں قابو میں نہیں لائے جارہے، انہیں ہمارا جواب ہے کہ حکومتی اخراجات میں اضافہ 2 فیصد سے کم رہا ہے، باقی باتیں اپنی جگہ ہیں مگر مالی گنجائش ہو تو ہم کچھ کرسکتے ہیں، جتنی چادر ہے اس کے مطابق ہی پاؤں پھیلانے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ابھی بھی وفاقی حکومت جو کچھ دے رہی ہے وہ قرضے لے کر دے رہی ہے، کیونکہ ہم نے خسارے سے ابتدا کی تھی۔

اس موقع پر سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں اس سے زیادہ کمی نہیں ہوسکتی تھی، جن شعبوں میں اخراجات بڑھے ہیں، وہاں شدید ضرورت تھی، وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف 2 فیصد اضافہ ہوا ہے، مالی نظم و نسق نہیں دکھایا جاسکتا۔

سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ مالی سال 23-2022 میں گئے تو وفاقی حکومت کے اخراجات میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا، 24-2023 میں گئے تو وفاقی حکومت کے اخراجات 23.6 فیصد بڑھے، 25-2024 میں حکومتی اخراجات میں 12.2 فیصد اضافہ ہوا، ابھی ہمارے اخراجات 10.3 فیصد بڑھے ہیں جن میں 7.5 فیصد افراط زر اور تنخواہوں میں اضافہ شامل ہے، اس سے زیادہ مالی نظم و نسق نہیں دکھایا جاسکتا ہے۔

وفاقی بجٹ 2025-26 کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بلائی گئی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس اس وقت کشیدگی کا شکار ہو گئی جب صحافیوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کانفرنس سے واک آؤٹ کر دیا۔

یہ پریس کانفرنس گزشتہ روز بجٹ پیش کئے جانے کے بعد کی جانی تھی، جو نہیں کی گئی۔ جس پر صحافیوں نے ٹیکنیکل بریفنگ نہ دئے جانے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس نہ کرنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کردیا۔

صحافیوں کے واک آؤٹ پر وزیر خزانہ ہکا بکا رہ گئے جبکہ چئیرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال اور دیگر حکام اپنی نشستیں چھوڑ کر صحافیوں کو منانے کیلئے گئے تاہم، بات نہ بن سکی۔

کانفرنس ہال میں صرف پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے چند سرکاری ملازمین رہ گئے۔ جبکہ صحافیوں کا کہنا تھا کہ عوام سے بجٹ کے حوالے سے چیزوں کو کیوں چھپایا جارہا ہے اس کی وجہ بتائی جائے۔ صحافیوں نے بجٹ میں ٹیکس چھپانے کا الزام بھی عائد کیا۔ صحافیوں نے کہا کہ تکنیکی بریفنگ نہ دے کر حقائق چھپانے کی کوشش کی گئی۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں سے ٹیکنیکل بریفنگ کی ایک روایت چلی آرہی تھی۔

صحافیوں کی ناراضی اور واک آؤٹ کے بعد وزیر خزانہ نے سینئر صحافیوں کے بنا ہی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس شروع کردی۔ کانفرنس کے دوران ہال میں شور شرابہ ہوتا رہا، لیکن وزیر خزانہ بنا کسی پروا کے بریفنگ میں مصروف رہے۔

بعدازاں، وزیراطلاعات عطاء اللہ تارڑ کے صحافیوں سے مذاکرات ہوئے، صحافیوں نے وزیرِ اطلاعات کی یقین دہانی پر بائیکاٹ ختم کردیا۔

وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایف بی آر بریفنگ کے حوالے سے صحافیوں کے تحفظات درست ہیں۔ جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے بھی صحافیوں کو ٹیکنیکل بریفنگ کی یقین دہانی کرائی۔
مزیدپڑھیں:بجٹ میں عام آدمی پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالا، وزیراعظم شہباز شریف

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: وفاقی حکومت کے اخراجات پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں تنخواہ دار طبقے کو محمد اورنگزیب نے ان کا کہنا تھا کہ ٹرانزیکشن کاسٹ تنخواہوں میں اضافی ٹیکس صحافیوں نے میں اضافہ کرتے ہوئے اضافہ ہوا کی گئی ہے جائیں گے حوالے سے انہوں نے کہ حکومت واک آؤٹ اس سال کیا کہ کے لیے

پڑھیں:

تحریک انصاف شدید مالی بحران کا شکار، سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان تحریک انصاف نے مالی بحران کی وجہ سے مرکزی سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی کردی جس کا سلسلہ گزشتہ 2 ماہ سے جاری ہے۔ایکسپریس نیوز کو پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق تنخواہوں میں یک دم 50 فیصد کٹوتی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے سیکرٹریٹ کے درجنوں ملازمین و مخلص کارکنان مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔

 جماعت کی قیادت سیکریٹریٹ میں کام کرنے والوں کے ساتھ مسلسل وعدہ خلافی کر رہی ہے، اکتوبر 2024 سے اب تک سیکرٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کٹوتی جاری ہے۔کئی ملازمین نے پارٹی کے لیے اپنی خدمات کے دوران گرفتاری اور تشدد برداشت کیا، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے اُن ملازمین کو بھی گھر بیٹھا دیا گیا ہے جن کیخلاف ایف آئی آرز درج ہوئی ہیں۔

سوات پولیس اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی ، کئی مقدمات میں مطلوب 3  دہشتگرد ہلاک

ایک پارٹی رہنما کے  نے کہا کہ  بحران ضرور ہے، لیکن چند لاکھ کی تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونا پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ملازمین کے مطابق چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سلمان اکرم راجہ ،شیخ وقاص، کو بارہا آگاہ کیا گیا لیکن واجبات ادا نہیں کیے جارہے۔میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ سبغت اللہ ورک سیاسی مشکلات کی وجہ سے روپوش ہو گئے تھے، جس کے بعد پارٹی نے مشکل وقت میں ان کو بھی نظر انداز کر دیا، اب سبغت اللہ ورک نے مالی اور دیگر مشکلات کے باعث پارٹی قیادت کو اپنا استعفی ارسال کر دیا۔ بانی چئیرمین کی ہدایت کے باوجود پارٹی کے درجنوں ایم این ایز اور ایم پی ایز نے فنڈز جمع نہیں کروائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے واجبات کی ادائیگی کی یقین دہانی بھی کروئی تھی مگر تاحال اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔

عدالتوں سے عوام ہی نہیں،ججز بھی غیر مطمئن ہیں، آقا اور غلام کا نظام اب مزید چلنے والا نہیں:حافظ نعیم الرحمان  

مزید :

متعلقہ مضامین

  • درآمدات قابو میں رکھنے کیلیے شرح سود میں استحکام وقت کی ضرورت
  • مالی بحران: پی ٹی آئی نے مرکزی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں پر 50 فیصد کٹ لگا دیا
  • دریائے سندھ میں تربیلا، کالا باغ، چشمہ، تونسہ کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ
  • تحریک انصاف شدید مالی بحران کا شکار، سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 4 فیصد سے زائد کا بڑا اضافہ
  • پی ٹی آئی مالی بحران کا شکار، سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی
  • پی ٹی آئی مالی بحران کا شکار، سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد کمی
  • ایرانی و قطری وزرائے خارجہ کی غزہ کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے فوری کارروائی پر تاکید
  • امریکا میں کتنے فیصد ملازمین کو خوراک کے حصول، بچوں کی نگہداشت میں مشکل کا سامنا؟
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی