وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس: صحافی واک آؤٹ کر گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)وفاقی بجٹ 2025-26 کی تفصیلات پیش کرنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بلائی گئی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس اس وقت کشیدگی کا شکار ہو گئی جب صحافیوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کانفرنس سے واک آؤٹ کر دیا۔
یہ پریس کانفرنس گزشتہ روز بجٹ پیش کئے جانے کے بعد کی جانی تھی، جو نہیں کی گئی۔ جس پر صحافیوں نے ٹیکنیکل بریفنگ نہ دئے جانے اور پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس نہ کرنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کردیا۔
صحافیوں کے واک آؤٹ پر وزیر خزانہ ہکا بکا رہ گئے جبکہ چئیرمین ایف بی آر صحافیوں کو منانے کیلئے گئے تاہم، بات نہ بن سکی۔
کانفرنس ہال میں صرف چند پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے چند ملازمین رہ گئے۔ جبکہ صحافیوں کا کہنا تھا کہ عوام سے بجٹ کے حوالے سے چیزوں کو کیوں چھپایا جارہا ہے اس کی وجہ بتائی جائے۔ صحافیوں نے بجٹ میں ٹیکس چھپانے کا الزام بھی عائد کیا۔ صحافیوں نے کہا کہ تکنیکی بریفنگ نہ دے کر حقائق چھپانے کی کوشش کی گئی۔
واضح رہے کہ بجٹ 2025-26 کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، اور میڈیا کے ساتھ اس نوعیت کی کشیدگی نے حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریونان کشتی حادثے کا مرکزی ملزم مصر سے گرفتار یونان کشتی حادثے کا مرکزی ملزم مصر سے گرفتار حجاج کرام کی وطن واپسی کا عمل شروع، پہلی پرواز اسلام آباد پہنچ گئی ’بہت ہوگیا، بس اب غزہ میں جنگ ختم کرو‘، ٹرمپ کی نیتن یاہو کو تنبیہہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی سماعت آج نہیں ہوسکے گی،وجہ سامنے آگئی امپورٹڈ سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کتنے فیصد ہوا ؟ تفصیلات سب نیوز پر ڈیری مصنوعات کی مشینری، میڈیکل اور سرجیکل آلات بھی مہنگے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس واک ا و ٹ کر

پڑھیں:

الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)

اسلام ٹائمز: چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ انکا دین، انکا مسلک اور انکا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ظالم اور جابر کی پرستش بھی کچھ لوگوں کا مذہب ہے۔ کچھ کے بقول منصبِ اقتدار پر زبردستی قابض ہونے والا غاصب حکمران بھی ظلِّ الٰہی بن جاتا ہے۔ اس کی تعظیم واجب اور اس کی اطاعت ثواب کا درجہ جبکہ اس کی مخالفت معصیت و گناہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک طرف بہت سارے لوگ ظالموں کو مقدس ثابت کرنے کیلئے تقاریر اور کتابوں کے انبار لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ہر دور میں ظالموں کے تقدس کی نفی کرنے والے بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ انسان ہوں یا الفاظ، جو بھی ظالموں کی اندھی پرستش کے بجائے عقل، عدل، منطق اور شعور کی خاطر کام آیا، وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ عظیم اہداف کیلئے استعمال ہونے والی تحریریں بھی عظیم انسانوں کی طرح زندہ رہتی ہیں۔ خورشید احمد چوہان ایڈووکیٹ صاحب کی وصیّت بعنوان "الہیٰ خزانہ" بھی ایسی ہی ایک نادر تحریر ہے۔ وہ 1944ء میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں انہوں نے یہ وصیت نامہ مرتب کیا۔ ان کی یہ وصیّت ایک نہایت اہم خزانے کے متعلق ہے اور اسی لئے اس کتاب کا نام بھی انہوں نے "الہیٰ خزانہ" رکھا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ وصیّت نامہ ان کی زندگی کے سماجی مشاہدات اور فکری تجربات کی قلمی صورت ہے۔

محترم  وصیّت نگار نے غوروفکر اور تدبّر کے ساتھ اپنے قلب و ضمیر کا عرق نچوڑ کر ان 541 صفحات میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے نزدیک  غور و فکر کے بغیر نہ تو کوئی خزانہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت ممکن ہے۔ میں چند دنوں سے اس کتاب کے سحر میں مبتلا ہوں، یہ کتاب جہاں اپنی زبان و بیان کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے، وہیں محققانہ مزاج اور منصفانہ رویّہ رکھنے والوں کے لیے بھی ایک انمول تحقیقی خزانہ ہے۔ چوہان صاحب کا اندازِ نگارش ہمارے ہاں کی وصیّت ناموں کی مروّجہ روایت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ عموماً وصیتیں جن کے لیے ہوتی ہیں، انہی کے کام کی ہوتی ہیں اور وہی انہیں محفوظ رکھتے ہیں، لیکن یہ وصیت ان سب سے مختلف ہے۔

مجھے اس وصیت نامے پر ابھی بہت کچھ لکھنا ہے، لیکن فی الحال یہ عرض کافی ہے کہ میں کتاب کی تزئین و آرائش یا اس کی سلیس و دلکش زبان پر تبصرہ نہیں کر رہا، نہ ہی مصنف کی ذات، دینداری، یا مسلک سے کوئی غرض رکھتا ہوں۔ میں تو بین السطور جھانکنے کا عادی ہوں۔ بین السطور محتویٰ کے مطابق مصنّف کو  ظالم لوگ سخت ناپسند ہیں اور شاید یہ خامی ہر انسان کے بچپن میں پائی جاتی ہو۔ کتابوں کی دنیا میں مجھے عہدِ کہن سے لے کر آج تک، کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو ظلم و ظالم کو برا کہے بغیر کسی عظیم منصب پر فائز ہوا ہو۔ گویا ظلم سے نفرت اور ظالم کے تقدس کا انکار، انسانی عقل کی معراج کا پہلا زینہ ہے۔ شریعت کی ابتدا بھی "لا الہ" سے ہوتی ہے اور عرفان و سلوک میں سالک کی یہی پہلی منزل ہے۔ "لا" کہنا آسان نہیں؛ اس ایک حرف میں ہزاروں خداؤں اور ظالموں سے انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔

اس وصیّت نامے نے مجھے میرا بچپن لوٹا دیا ہے۔ مجھے بچپن میں خدا اس لیے پسند آیا تھا کہ وہ ظالموں سے نفرت کرتا تھا۔ آسمان پر اُڑتے سفید بادلوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا، جیسے حق و باطل کے لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں۔ آج بھی میرے نزدیک وہ بچپن کا سادہ اور شفاف تصورِ خدا، تمام فلسفوں پر بھاری ہے۔ ہر دور میں اس  طرح کے کئی لوگ اپنے اسی بے داغ بچپن کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور پوری عمر اپنے تصور، وہم و گمان اور خواب و خیال میں ظالموں سے لڑتے رہتے ہیں۔ چوہان صاحب کا یہ وصیت نامہ سالکینِ راہِ خدا کے اسی شفاف مسلک کی نشان دہی کرتا ہے۔ جیسا کہ صفحہ 50 پر انہوں نے لکھا ہے کہ “بچے کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم سے پیار کرتا ہے۔

خداوند متعال نے مجھ میں یہ خصلت کچھ زیادہ عطا فرمائی تھی کہ میں جب بھی کسی پر ظلم ہوتا دیکھتا (خواہ اپنا و یا بیگانہ ہو، اس کے مقابلہ میں ظالم خواہ کس قدر طاقتور اونچے نصیب والا معزز (Elite) اور خوبصورت گورا چٹا ہی کیوں نہ ہو اور اپنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو) میرا خون کھولنا شروع ہو جاتا۔ رنگ متغیر ہو جاتا اور میں بالکل پکا کا میٹر (Meter) ہو جاتا اور فور ظالم سے مکمل طور پر مظلوم کے حق میں ٹکرا جاتا۔ مجھے کوئی بلکہ قطعاً خوف نہ ہوتا کہ ظالم مجھے بھی مظلوم کے ساتھ پیس کر رکھ دے گا، میں پرائی آگ میں کود پڑتا۔” چوہان صاحب کا یہ احساس دراصل انسانی تاریخ کا مجموعی شعور ہے۔ یہ وہ آواز ہے، جو ہر انسان کے ضمیر اور فطرت کی گہرائی سے ابھرتی ہے کہ اگر مظلوم کے مقابلے میں خدا بھی کھڑا ہو تو اس کا بھی انکار کر دو، باقی شخصیات اور بزرگ تو دور کی بات ہیں۔

ایسے مزاج کے لوگوں کے نزدیک ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا انسانیت کی گمشدہ میراث ہے اور یہی حقیقی سیروسلوک کا پہلا قدم۔ ظلم کے تقدس کا تصور فرعونی تہذیب سے بھی پہلے کا ہے اور آج بھی امتِ مسلمہ کے ایک بڑے حصے میں زندہ ہے۔ نہ سوچنے والی اکثریت آج قرآن مجید کو حفظ کرنے، چھاپنے اور رٹنے کے ساتھ ساتھ  ظالموں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ الہیٰ خزانہ کہاں گیا، جو قرآن کے ذریعے انسانوں کو بیدار کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔؟ کیا صاحبِ قرآنﷺ نے اس خزانے کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی۔؟

چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ ان کا دین، ان کا مسلک اور ان کا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • چینی وزیر اعظم کی 2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکت
  • سپر آڈیٹر کا آڈٹ کون کرے گا؟ وزارت خزانہ اور اے جی پی آفس میں تنازع
  • 2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کا شنگھائی میں آغاز 
  • چین،2025 عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس کا شنگھائی میں آغاز 
  • سستے گھروں کی تعمیر کے لیے  سکیم کی منظوری   
  • غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات 
  • بھارت میں جبری مذہبی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ پر انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ
  • پریس کانفرنس کرنیوالوں کو معاف کرنا انصاف کے دوہرے معیار کی واضح مثال، اسد قیصر