کراچی:

پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل(پی آر اے سی) نے وفاقی بجٹ 26-2025 پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غیر حقیقی آمدنی اہداف، 74 فیصد وفاقی آمدن کا قرضوں کی ادائیگی پر خرچ اور ترقیاتی پروگرام میں 29 فیصد کٹوتی معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہے۔

چیئرمین پی آر اے سی محمد یونس ڈاگا نے گرین سکوک اور تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس ریلیف جیسے اقدامات کو خوش آئند قرار دیا مگر کہا کہ کم آمدنی والے طبقے کے لیے خاطر خواہ ریلیف نہیں دیا گیا۔

بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے جائیداد پر ٹیکس میں کمی کو سراہا اور کہا کہ یہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری لا سکتی ہے۔

انہوں نے بجٹ کے غیر حقیقی آمدنی اہداف، 74 فیصد وفاقی آمدن کا قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہونے، اور ترقیاتی پروگرام میں 29 فیصد کٹوتی کو معاشی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ پی ایس ڈی پی میں کمی سے روزگار، تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

پی آر اے سی نے صنعتی شعبے میں کمی 1.

5فیصد اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے کسی مراعات کی عدم موجودگی پر بھی تشویش ظاہر کی، ادارے کے مطابق حکومت نے برآمدات بڑھانے اور زرمبادلہ کمانے کے اہم مواقع ضائع کیے۔

بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے کے فور منصوبے کی مد میں محض 3.2 ارب روپے مختص کرنا ناکافی قرار دیا گیا۔

محمد یونس ڈاگا کے مطابق حکومت نے اصلاحات کا سنہری موقع گنوا دیا ہے۔

پی آر اے سی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ پر نظرثانی کی جائے اور معاشی حقیقتوں سے ہم آہنگ، پائیدار اور عوام دوست پالیسیوں کو اپنایا جائے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی آر اے سی کے لیے

پڑھیں:

برآمدات اور چکوال کا کلاؤڈ برسٹ

دنیا کی عالمی تجارتی منڈی ایک شوریدہ بازار ہے، جہاں ہر قوم اپنے ہنر، عقل، حکمت، ہاتھوں کی صفائی، دلکشی، رعنائی کو قیمت بنا کر پیش کرتی ہے، کہیں پیکنگ کو تجارتی سفارتکار دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہیں، کہیں کم قیمت سمجھ کر سیانا تاجر دل سے قبول کر لیتا ہے، کوئی ٹیکنالوجی کی بانسری بجا رہا ہے، جس کی دھن پر تاجر کروڑوں کا آرڈر دینے کے لیے تیار نظر آتا ہے اور کوئی زرعی پیداوار کے ڈھول پر ان امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو رقص کرواتا ہے۔

ان سب کے پیچھے کہیں کچھ پاکستانی تاجر دھول میں اٹے کپڑوں کے ساتھ کسی کے ہاتھ میں چاول کی تھال ہے، کسی نے بکرے کی ران نمائش کے لیے سنبھال رکھی ہے اور کوئی مختلف اقسام کی اشیا جوتے، لیدر گارمنٹ اور چند چیزیں لیے کھڑا ہے۔ ان میں ٹیکسٹائل ملوں کا وہ صنعت کار بھی ہے جس کے ہاتھ میں کچھ سلے کچھ ان سلے کپڑے اور دیگر اشیا موجود ہیں۔

اس تجارتی منڈی میں تاجر، صنعت کار، تجارتی سفارت کار درآمد اور برآمد کا کاروبار کرنے والے آتے ہیں، سامان دیکھتے ہیں اور پھر دوسرے ملکوں کو آرڈر دے دیتے ہیں، کسی کی برآمدات پاکستان سے دگنی کسی کی تگنی اور چوگنی والے بھی ہیں اور 10 گنا والے ویتنام جیسے بھی ہیں۔ جی ہاں ویتنام جنگ زدہ، جہاں امریکا نے 60 اور 70 کی دہائی میں دل کھول کر بمباری کی تھی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے لیکن اب ہم بھی تو مشرقی پڑوسی کو تگنی کا ناچ نچا کر فاتح ہو گئے اور تجارتی منڈی میں آنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کو ہم عالمی مارکیٹ میں اپنے حق میں کیش کرانے کا ہنر آزمانا ہوگا، جنھوں نے کہا ہے کہ 5 طیارے مار گرائے گئے اور جنگ بندی ہو گئی تو تجارت بڑھے گی انھوں نے راستہ بنا دیا۔

 یہ دنیا ہے یہاں کچھ غنودگی کے عالم میں ہوں گے ان کو باور کرایا جائے پانچ یا 6 طیارے دراصل ہم نے گرائے ہیں اور اب ہم تجارتی منڈی میں فتح کرنے آئے ہیں، لیکن اس سے قبل ہم اپنی برآمدی کیفیت کو دیکھ لیتے ہیں۔ پاکستان کی برآمدات برائے 2024-25 محض 32 ارب ڈالر جس میں 3 ارب 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے چاول فروخت کیے۔ 16 کروڑ65 لاکھ ڈالرز کے تمباکو بیچ دیے، 49 کروڑ51 لاکھ ڈالرز کا گوشت دنیا کو فروخت کیا ہے، ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات کا حجم رہا 17 ارب 88 کروڑ70 لاکھ ڈالرز۔ اور 4 ارب 23 کروڑ ڈالرز کی دیگر مصنوعات جس میں لیدر گارمنٹس، فٹ ویئر، قالین، گلوز، سرجیکل آئٹمز، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

دنیا نے 10 مئی کے بعد پاکستان کو خوب بدلا ہوا سمجھ لیا۔ صدر ٹرمپ یوں ہی بار بار ہماری فتح کے شادیانے نہیں بجا رہے۔ اب ہمیں آگے بڑھ کر تجارتی منڈی میں بھی اپنا لوہا منوانا ہے۔ حکومت اپنی سمجھ کے مطابق کوئی بھی ہدف مقرر کرے کہ 2025-26 کا برآمدی ہدف 35 یا 37 ارب سمجھا جائے، ہم نے اس سے بھی آگے جانا ہے۔

60 سے 70 ارب ڈالر فی الحال۔ یہ سب ممکن ہے، چند دن تیاری کے لیے لیں اور اب گیارہ ماہ باقی ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہریے58 ارب ڈالرز کی درآمدات آخر ایسا کیوں، سوائے پٹرولیم مصنوعات کے ہم اپنی زیادہ تر درآمدات ان ملکوں سے منگواتے ہیں جو صنعتی ممالک ہیں، امیر ترین ہیں لیکن اسرائیل جو غزہ میں درندگی سے باز نہیں آ رہا، اس کے زبردست مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کے معاشی مسائل کا حل یہی ہے کہ برآمدات سے زیادہ درآمدی بل سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

گزشتہ دنوں چکوال میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ایسا معلوم ہوا جیسے آسمان برس پڑا ہو۔ پھر چند ہی لمحوں میں ایسا طوفانی ریلا آیا جس سے ہزاروں درخت اکھڑ گئے، مویشی بہہ گئے، چکوال شہر کا زیادہ تر حصہ ڈوب گیا، 9 پل ٹوٹ گئے، 5 سڑکیں تباہ ہوگئیں، نصف درج ڈیمز ٹوٹ گئے۔ یہ کوئی فطری حادثہ نہیں تھا یہ ایسی ماحولیاتی بغاوت تھی جسے خود عوام نے بلایا تھا۔ ہر طرف تباہی کا منظر تھا ایسے میں کئی نوجوان اور ادھیڑ عمر افراد نے لوگوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ متعدد رضاکار پانی میں اتر گئے۔

درجنوں افراد کو بروقت نکالا۔ ہر طرح کی امداد گھر گھر پہنچائی، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی ریڈار سسٹم لگایا جائے۔ بارش کے پانی کا قدرتی بہاؤ محفوظ کیا جائے، اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد بھی شدید متاثر ہوئے۔ نالہ لئی تو ہر سال بپھر جاتا ہے جس کا صحیح انتظام کیا جائے۔ اسی طرح پنجاب کے دیگر شہر خصوصاً لاہور شدید بارشوں سے متاثر ہوا۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حکومت اس سلسلے میں فوری طور پر تمام ممکنہ حل پر عملدرآمد کرے جس میں رضاکاروں کی تربیت بھی نہایت ہی اہم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • زائرین کے بائی روڈ سفر پر پابندی کو مسترد کرتے ہیں، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
  • حق دو بلوچستان تحریک کو اسلام آباد جانے کا موقع نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • ہم ہرگز غزہ کے عوام کا خون ضائع نہیں ہونے دینگے، خلیل الحیہ
  • پاکستان کی وسطی ایشیائی ممالک کو برآمدات میں 32 فیصد کمی، درآمدات میں 4 گنا اضافہ
  • پاکستانی فارما برآمدات 457 ملین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں
  • وفاقی حکومت نے قومی بچت سکیموں پر منافع کی شرح میں تبدیلی کر دی
  • برآمدات اور چکوال کا کلاؤڈ برسٹ
  • فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • لیاری میں عمارت گرنے پر تنقید جائز تھی، ذمہ داری قبول کرتے ہیں: سعید غنی
  • وفاقی حکومت نے بچت اسکیموں پر منافع کی شرح میں ردوبدل کردی