بجٹ سے مڈل کلاس اور کسان طبقے کی کمر ٹوٹ گئی، مصطفیٰ نواز کھوکھر
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کی پیداوار کم ہوئی، کسان سڑکوں پر آچکا ہے، اس کے پاس قرض ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں، حکومت نے قومی بیج پالیسی کا ریلیف دیا کہ پالیسی تیار کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ بجٹ سے مڈل کلاس اور کسان طبقے کی کمر ٹوٹ گئی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ایک، ڈیڑھ سال سے حکومت کا بیانہ رہا ہے معیشت مستحکم ہوچکی ہے، اگر معیشت مستحکم ہوئی ہے تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیے تھا، یہ بجٹ مایوس کن ہے، اس میں ریلیف ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں ٹیکسز مزید بڑھا دیے گئے ہیں، مڈل کلاس اور کسان طبقے کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے، ایک لاکھ روپے تنخواہ والوں پر 2 ہزار روپے کم کیے گئے، جس کی ڈیڑھ لاکھ تنخواہ تھی اس پر 4 ہزار روپے کم کیے ہیں، زراعت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔
سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کی پیداوار کم ہوئی، کسان سڑکوں پر آچکا ہے، اس کے پاس قرض ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں، حکومت نے قومی بیج پالیسی کا ریلیف دیا کہ پالیسی تیار کی جائے گی۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ طلبہ کو زراعت پڑھنے کیلئے چین بھیجیں گے، طلبہ 5 سال بعد پاکستان آکر مشورہ دیں گے، زراعت کیسے ٹھیک کرنی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 700 سے 800 سی سی گاڑیاں مہنگی کردی گئی، حکومت نے چھوٹی گاڑیوں پر 18 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے، جسے مڈل کلاس لوگ استعمال کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نواز کھوکھر کہنا تھا کہ مڈل کلاس
پڑھیں:
حکومت نے 4 ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی ہے، تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دیا ہے، محمد اورنگزیب
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11جون 2025)وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے 4 ہزار ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی ہے، تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دیا ہے، پنشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے، حکومت کی اولین ترجیح برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دینا ہے اور اس مقصد کیلئے ٹیرف اصلاحات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ وزیراعظم اور میری خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں۔ پینشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے۔ تنخواہوں اور پنشن کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے۔ ٹیرف اصلاحات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ٹیرف اصلاحات سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا مجموعی طور پر 7 ہزار ٹیرف لائنز ہیں۔(جاری ہے)
اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30 سال میں پہلی بار کی گئی ہیں۔ مزید 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے جن میں سے 2 ہزار ٹیرف لائنز براہ راست خام مال سے تعلق رکھتی ہیں اس کے نتیجے میں برآمد کنندگان کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اخراجات میں کمی آنے سے وہ مسابقت کے قابل ہوں گے اور زیادہ برآمدات کرسکیں گے۔
ٹیرف اصلاحات ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوں گی۔پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت نے جہاں ممکن ہو سکا ریلیف دیا ہے، مگر مالی حقائق اور زمینی حالات کے مطابق فیصلے کئے گئے ہیں۔ تنخواہ یا پینشن کی بات ہوتو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے۔ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے۔ مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے سات فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔ سٹرکچرل ریفارم کے حوالے سے بہت بڑا قدم ہے اور ہم اسے مزید آگے لے کر جائیں گے۔ تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دیا ہے۔ پنشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ اس سال ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے 400 ارب سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا ، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگا دیں اس حوالے سے قانون سازی کیلئے دونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔ ایڈیشنل ٹیکس زرعی شعبے پر نہ لگانے پر بورڈ سے بات کی گئی، چھوٹے کسانوں کیلئے قرضے دئیے جائیں گے۔حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جتنا ہو سکے ریلیف فراہم کیا جائے۔ پنشن کے حوالے سے بھی اصلاحات کی گئی ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں سے متعلق وزیر خزانہ نے شکوہ کیا کہ وہ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم قانون پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہیں اور ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔ان کایہ بھی کہنا تھا کہ سپر ٹیکس میں بتدریج کمی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور چھوٹے کسانوں کیلئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ زراعت کو مستحکم بنایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ اضافی ٹیکسز مجبوری کے تحت لگانے پڑے کیونکہ مالیاتی گنجائش محدود ہے۔