مذاکرات کے چھٹے دور سے قبل اسٹیو ویٹکاف کی ایران کیخلاف دباؤ بڑھانے کی کوشش
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
ایک تقریب میں اپنے ایک خطاب کے دوران امریکی نمائندے کا کہنا تھا کہ جس طرح جوہری ایران، اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ہے اسی طرح امریکہ کیلئے خطرہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ رویٹرز نے ایک امریکی عہدیدار کا حوالے دیتے ہوئے تصدیق کی کہ امریکہ اور ایران کے درمیان اتوار کو بالواسطہ مذاکرات کا چھٹا دور عمان میں ہوگا۔ امریکہ کی نمائندگی "اسٹیو ویٹکاف" اور ایرانی مذاکراتی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" کریں گے۔ اس راؤنڈ میں امریکی پیش کردہ تجاویز پر ایران کے جواب پر بات ہو گی تا کہ معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ تاہم اس سارے طے شدہ شیڈول کے باوجود، امریکی نمائندے اسٹیو ویٹکاف نے گزشتہ شب ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف بات کرتے ہوئے دباؤ بڑھانے اور مذاکراتی عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نیویارک میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ میں نے قبل ازیں صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" سے گفتگو کی، جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ امریکہ کو کسی صورت ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تا کہ وہ جوہری ہتھیار نہ بنا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح جوہری ایران، اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہے اسی طرح امریکہ کے لئے خطرہ ہے۔ اسٹیو ویٹکاف نے مزید کہا کہ ہمیں (امریکہ + اسرائیل) محکم طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکا جا سکے، چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ انہوں نے اپنے مزید بے بنیاد دعووں کو دُہراتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس بڑی مقدار میں میزائلوں کا ہونا بھی ایک جوہری خطرہ سے کم نہیں۔ جو امریکہ، آزاد دنیا اور خلیج فارس کے تمام ممالک کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسٹیو ویٹکاف ایران کے خطرہ ہے کہا کہ
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔