اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً 4,000 نیشنل گارڈ اہلکار اور 700 فعال میرینز کو ریاست کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں تعینات کیا ہے، تاکہ غیر قانونی طور پر ملک میں آنے والے تارکین وطن کو پکڑنے کی کوششوں کے خلاف اچانک بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ غیر معمولی مظاہرے ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ہو رہے ہیں۔

لاس اینجلس میں مظاہرین پر قابو پانے کے لیے میرینز تعینات

اے بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ’’لاس اینجلس میں 4,800 فعال نیشنل گارڈ اور میرینز اہلکار ہیں، جبکہ عراق میں 2,500 اور شام میں 1,500 امریکی فوجی ہیں۔‘‘

پینٹاگون کے مطابق لاس اینجلس میں فوج کی تعیناتی پر ٹیکس دہندگان پر 60 دنوں میں 134 ملین ڈالر کا بوجھ پڑے گا۔

(جاری ہے)

صدارتی اختیارات کے ’غلط استعمال‘ پر تشویش میں اضافہ

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لاس اینجلس میں مظاہرین کے خلاف فوج کو تعینات کر دیا جب کہ وفاقی عدالت کے احکامات کو نظر انداز کر دیا ہے- یہ ایسے اقدامات ہیں جن سے امریکہ میں جمہوری اداروں کی حالت کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔

امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری

عام طور پر، صدر امریکی ریاست میں نیشنل گارڈ کو اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر تعینات نہیں کر سکتے۔

گورنروں کو ایسی تعیناتیوں کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جب کہ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم نے نیشنل گارڈ کی ضرورت کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

تاہم، 1807 کے بغاوت ایکٹ کے تحت، صدر کو بغاوت یا شہری بدامنی کے معاملات میں گورنر کی اجازت کے بغیر فوجی دستے تعینات کرنے کا اختیار ہے۔ امریکی وفاقی نظام میں ریاستوں کے حقوق کو دی جانے والی اہمیت کے پیش نظر ٹرمپ کے اس اختیار کو استعمال کرنے کے فیصلے کو انتہائی غیر معمولی سمجھا جارہا ہے۔

گورنر نیوزوم نے ٹرمپ پر ایگزیکٹو پاور کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا اور خبردار کیا ہے کہ ان کے اقدامات سے جمہوری اصولوں کو خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’کیلیفورنیا میں یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے، لیکن یہ واضح طور پر یہیں ختم نہیں ہو گا۔‘‘ نیوزوم نے کہا،’’اس کے بعد دوسری ریاستوں کا نمبر آئے گا اور پھر جمہوریت کا۔

‘‘ امیگریشن مخالف چھاپوں کو روکنے کے مطالبات

لاس اینجلس ایریا کے میئرز اور سٹی کونسل کے اراکین نے امیگریشن کے خلاف جاری مسلسل چھاپوں کو روکنے کا مطالبہ کیا اور ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ امیگریشن ایجنٹوں کے ساتھ مسلح فوجی دستے کا استعمال بند کر دیں۔

پیراماؤنٹ کی نائب میئر برینڈا اولموس نے کہا، ’’میں آپ سے درخواست کرتی ہوں، براہ کرم میری بات سنیں، ہمارے رہائشیوں کو دہشت زدہ کرنا بند کریں۔

‘‘ اولموس اواخرہفتہ کو مظاہروں کے دوران ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا، "آپ کو ان اقدامات کو روکنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ایک نیوز کانفرنس میں لاس اینجلس میں دیگر میئرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے میئر کیرن باس نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کی ایما پر چھاپوں کے ذریعہ خوف پھیلایا گیا۔ شہر میں ضرورت کے مطابق رات کا کرفیو نافذ رہے گا۔

کیرن باس نے کہا ’’اگر چھاپے جاری رہے، اور اگر فوجی ہماری سڑکوں پر مارچ کرتے رہے تو میں تصور کرسکتی ہوں کہ کرفیو جاری رہے گا۔‘‘

ملک گیر چھاپوں میں پکڑے جانے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیں، اپنے ویزے کی مدت سے زائد قیام کرنے والے اور وہ تارکین وطن بھی شامل ہے جو اپنے مقدمات کی عدالتی سماعت کے منتظر ہیں۔

انتظامیہ نے نیشنل گارڈ اور میرینز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کے دفاع میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا حوالہ دیا ہے۔

کیلیفورنیا کے گورنر کی عدالت سے مداخلت کی اپیل

کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک گورنر، گیون نیوزوم نے ایک وفاقی عدالت سے اپیل کی ہے کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں امیگریشن کے خلاف کارروائیوں میں مدد کرنے والی فوج کو ہنگامی طور پر روک دے۔

ایک جج نے اس درخواست پر جمعرات کو سماعت مقرر کی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے بدھ کو اپنے سرکاری ردعمل میں اس مقدمے کو ’’غلط سیاسی اسٹنٹ‘‘ قرار دیا۔ جس سے اس کے بقول امریکی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے فوج تعینات کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’اگر میں فوج نہ بھیجتا تو شہر جل چکا ہوتا۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لاس اینجلس میں کیلیفورنیا کے نیشنل گارڈ نیوزوم نے کے خلاف نے کہا کر دیا دیا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی

واشنگٹن: امریکی شہریوں نے اعتراف کر لیا  کہ ڈونلڈ ٹرمپ بوڑھے ہو چکے اور وہ اب صدارت کے اہل نہیں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر کے حوالے سے امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی۔ 88 فیصد ڈیموکریٹس، 68 فیصد آزاد اکثریت اور 39 فیصد ریپبلکن نے امریکی صدر کو نااہل قرار دے دیا جبکہ ریپبلکن کے 59 فیصد نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیت پر حمایت کی۔
79 سالہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عمر نے سیاست میں نئی بحث چھیڑ دی۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس عمر میں صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔
اسوقت ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کا موازنہ ایک دوسرے کی عمر سے کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جوبائیڈن بھی 81 برس کے ہو چکے ہیں۔ اور اس عمر میں دماغی صحت، جسمانی توانائی اور فیصلہ سازی کی قوت جیسے سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
حالیہ سروے میں کہا گیا  کہ ووٹر کا اس بات پر زور ہے کہ صدارت جیسے حساس عہدے کے لیے عمر کی حد پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے رویئے، گفتگو اور جذبے کو دیکھ کر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی اس عہدے کے اہل ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر ضرور زیادہ ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اور وہ اب بھی ریپبلکن پارٹی میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اور ان کے چاہنے والے انہیں دوبارہ بھی صدارت کے عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • دیسی گھی یا مکھن، دونوں میں سے زیادہ فائدہ مند کیا ہے؟
  • دیشا پٹانی کے گھر کے باہر فائرنگ کرنے والے ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی