لیہ، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی بستی سرگانی میں شہداء اور زخمیوں کے گھر آمد، شہداء کے لواحقین سے اظہار افسوس
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر سے قافلے بی بی پاکدامن لاہور جاتے ہیں جہاں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزا میں شریک ہوتے ہیں، چار روز قبل لاہور سے واپسی پر بستی سرگانی کی ماتمی انجمن کی بس کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں پانچ افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے وفد نے لیہ میں گزشتہ دنوں لاہور بی بی پاکدامن سے واپسی پر حادثے کا شکار ہونے والی بس کے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں سے ملاقات کی، شہداء اور زخمیوں کا تعلق ضلع لیہ کے نواحی علاقے بستی سرگانی سے تھا، عیدالاضحی کے موقع پر ملک بھر سے قافلے بی بی پاکدامن لاہور جاتے ہیں جہاں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزا میں شریک ہوتے ہیں، چار روز قبل لاہور سے واپسی پر بستی سرگانی کی ماتمی انجمن کی بس کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں پانچ افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہیں۔ وفد میں سینیئر نائب صدر مجلس وحدت مسلمین عزاداری ونگ صفدر حسین خان، ممبر ضلعی امن کمیٹی لیہ سید محمد ثقلین زیدی، مجلس علمائے مکتب اہلیبیت کے رہنما علامہ ذوالفقار علی حیدری، سابق ضلعی صدر مجلس وحدت مسلمین ساجد حسین خان گشکوری، سابق ضلعی صدرایم ڈبلیو ایم لیہ جمیل حسین خان شامل تھے۔ ایم ڈبلیو ایم کے وفد نے شہداء کے لواحقین سے تعزیت کی اور بلندی درجات کی دعا کی جبکہ حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی اور صحت کاملہ کی دُعا کی۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔