data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کی خواہش ظاہر کی ہے، جس کے بعد بھارت میں ایک غیر معمولی اشتعال انگیزی کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔

جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد دعوے دار ملک میں مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی دلچسپی کے خلاف منفی ردعمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف سفارتی آداب سے متصادم ہے بلکہ شدت پسندی کے اس رجحان کی عکاسی بھی کرتا ہے جس نے بھارتی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔

ٹرمپ کے اس بیان کے فوری بعد بھارت کی مختلف ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کی قیادت انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کی۔ ان مظاہروں میں نہ صرف امریکا کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی بلکہ احتجاج کے دوران امریکی پرچم کو پاؤں تلے روندا بھی گیا اور میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی پرچم کو سرعام نذر آتش بھی کیا گیا۔

کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم کو زمین پر بچھا کر اس پر پاؤں رکھے، تھوکا اور پھر اسے جلا دیا۔ ایسے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت میں امریکی صدر کے بیان کو کتنی شدت سے مسترد کیا جا رہا ہے اور صرف پاکستان دشمنی میں ہندو انتہا پسند کس حد تک جذباتی اور انتقامی ردعمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

احتجاج میں شامل افراد کی زبان سے نکلنے والے الفاظ میں شدت اور نفرت نمایاں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا عالمی سیاست میں گندا کردار ادا کر رہا ہے اور اپنی چالاکی کے ذریعے بھارت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

مظاہرین نے امریکی صدر پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان کے کہنے پر مسئلہ کشمیر میں مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں، جو بھارت کی خودمختاری کے خلاف سازش ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ امریکا کو صرف وہی اقوام پسند آتی ہیں جو اس کے مفادات کا تحفظ کریں اور اگر کوئی ملک ان سے اختلاف کرے تو وہ فوری طور پر اسے سیاسی طور پر کمزور کرنے کی مہم چلاتے ہیں۔

مظاہرین کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں ایک مخصوص نظریاتی طبقہ (ہندوتوا) نہ صرف خارجہ پالیسی کو مذہبی بنیادوں پر پرکھ رہا ہے بلکہ عالمی سفارتکاری کے معمولات کو بھی اسی نظریے کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ امریکا جیسے ملک کے خلاف یہ غصہ صرف ٹرمپ کے بیان تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے بھارت کی داخلی کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کا بھی روپ اختیار کر لیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ غصہ دراصل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ان ناکامیوں کی پردہ پوشی ہے جو اسے کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل درپیش ہیں۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اندرونی حالات بالخصوص کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی، مقبوضہ وادی میں مسلسل پابندیوں اور سیاسی قیدیوں کی موجودگی کی وجہ سے دنیا کی نظریں اب زیادہ تیزی سے اس خطے پر مرکوز ہو رہی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ صرف ایک داخلی مسئلہ ہے تو پھر عالمی سطح پر اس حوالے سے بات چیت کیوں ہوتی ہے؟ کیوں اقوام متحدہ میں کشمیر کا ذکر آج بھی موجود ہے؟ کیوں عالمی میڈیا کشمیر میں بھارتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے؟

اس کا ایک ہی جواب ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے اور جب بھی کوئی طاقتور ملک اس تنازع کے حل کے لیے آواز بلند کرے گا، تو اس سے بھارت میں موجود انتہا پسند عناصر کو تکلیف ہو گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: امریکی پرچم مسئلہ کشمیر بھارت میں کے خلاف رہا ہے

پڑھیں:

امریکی محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر کی گونج

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جون2025ء)بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کا تنازعہ امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ایک بار پھر سامنے آیا جب ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں ثالثی کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حیران کن نہیں ہو گا۔کشمیر میڈیاسروس کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھارت اور پاکستان میں فائر بندی کے بعد کشمیر کے مسئلے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میں اس بارے میں بات نہیں کر سکتی کہ صدر کے ذہن میں کیا ہے یا ان کے کیا منصوبے ہیں۔

البتہ میں یہ جانتی ہوں کہ وہ اپنا ہر قدم نسلوں پر محیط تنازعات کو حل کرنے کے لیے اٹھاتے ہیںلہذا اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ وہ ایسے معاملات میں ثالثی کرنا چاہیں گے۔

(جاری ہے)

ٹیمی بروس نے مزید کہا’’وہ(ٹرمپ) نہ صرف ایسا ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ واقعی ایسے افراد کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہے ہیں، جسے پہلے ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا‘‘۔

ترجمان نے بظاہر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہاہر دن کچھ نیا ہوتا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ شاید ایسا کوئی معاملہ بھی صدر کی مدت مکمل ہونے سے پہلے حل ہو جائے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے اس دعوے کو بھی دہرایا کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ ماہ چار روزہ تنازعے میں فائر بندی کے لیے مداخلت کی تھی۔

ٹیمی بروس نے امریکی شمولیت کے دعووں پر زور دیتے ہوئے مزید کہایہ ایک خوش آئند موقع ہے، اگر ہم اس تنازعے پر کسی نتیجے تک پہنچیں، تو خدا کا شکر ہے اور ساتھ ہی سیکریٹری روبیو، صدر ٹرمپ اور نائب صدر کا بھی شکریہ۔"صحافی نے منگل کے روز ہونے والی پریس بریفنگ کے دوران پوچھا تھا’’پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کی تھی، میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہم اس حوالے سے آگے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔

‘‘دریں اثنا امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کے بیان پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنا ہٹ دھرمی پر مبنی روایتی ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا’’جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی مسئلے کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ طور پر حل کیا جانا ہے۔ یہی ہمارا موقف ہے اور یہ بدستور برقرار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر کی گونج
  • امریکی صدر ٹرمپ کی ایک بار پھر مسئلہ کشمیر حل کیلئے ثالثی کی پیشکش
  • ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے بیان پر بھارتی سیخ پا‘ امریکی پرچم نذر آتش
  • ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے بیان پر بھارتی سیخ پا( امریکی پرچم نذر آتش)
  • میں کوئی بھی مسئلہ حل کرسکتا ہوں؛ ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی ایک بار پھر پیشکش
  • ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے بیان پر بھارتی سیخ پا، امریکی پرچم نذر آتش
  • ٹرمپ کے کشمیر سے متعلق کردار پر غصہ عروج پر،انتہا پسند ہندوؤں کی امریکی پرچم کی بے حرمتی
  • صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟
  • صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرسکتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ