data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے منگل کے روز مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں، قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2025-26ء کا میزانیہ پیش کیا جس کی مجموعی مالیت 17 ہزار 573 ارب روپے ہے اور 6501 ارب روپے کا خسارہ بتایا گیا ہے، میزانیہ میں چھے سو اسی ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے گزشتہ ماہ پاکستان پر مسلط کی گئی جنگ اور بھارت کے جارحانہ عزائم کے پیش نظر آئندہ برس کے دفاعی بجٹ میں بیس فی صد کا اضافہ ناگزیر سمجھا گیا ہے تاہم قومی خزانے پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ تشویش ناک حدوں کو چھو رہا ہے وزیر خزانہ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران 6.
57 فی صد اضافہ کے بعد قرضوں کا مجموعی حجم 760 کھرب روپے سے زائد ہے جس میں سے 515 ارب روپے کا قرض ملکی اور 245 کھرب روپے کا بیرونی قرضہ پاکستانی قوم پر واجب الادا ہے قومی خزانے پر اس قرض کے بوجھ کی کیفیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میزانیہ کی کل مالیت 17573 ارب روپے کا تقریباً نصف یعنی 82.066 کھرب روپے قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ جب میزانیہ کا اس قدر بھاری حصہ سود وغیرہ کی مد میں ادا کرنا پڑے تو دیگر مدات کے لیے ضروری اور مناسب رقم کیوں کر دستیاب ہو سکتی ہے چنانچہ سود در سود کے شیطانی چکر میں جکڑی ہوئی ہماری معیشت کے بارے میں اپنی بعد از بجٹ وضاحتی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر خزانہ جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم ہر کام قرض لے کر کر رہے ہیں‘‘۔ تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی اسی پریس کانفرنس میں اپنی دیگر بہت سی مجبوریوں کا بھی ذکر کیا ان کا کہنا تھاکہ اگر مجلس شوریٰ نے ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے قانون سازی نہ کی تو منی بجٹ لانے پر مجبور ہوں گے۔ ہماری پارلیمان سے یہی گزارش ہے کہ وہ ٹیکسوں کے نفاذ کے لیے قانون سازی اور ضروری ترامیم کرے تاکہ ہمیں دیگر اضافی اقدامات نہ کرنا پڑیں کیونکہ ٹیکسوں کا نفاذ نہ کیا جا سکا تو ہمیں پانچ سو ارب روپے تک اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے رواں برس نے ہم نے انفورسمنٹ کے ذریعے چار سو ارب روپے سے زیادہ کا ٹیکس جمع کیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں برائے نام یعنی دس اور سات فی صد کا معمولی اضافہ کرنے سے متعلق وفاقی وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اس اضافہ کو مہنگائی کی شرح سے منسلک کر دیا ہے کیونکہ مالی وسائل کی گنجائش کو پیش نظر رکھنا ہماری مجبوری ہے موجودہ شرح سے اضافہ کرنے سے بھی قومی خزانے پر28 سے 30 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ وزیر خزانہ کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ غریب عوام کی مجبوریوں کا خیال کون رکھے گا انہوں نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کو مہنگائی سے منسلک کرنے کا اعلان بھی اپنی بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں کیا ہے مگر وضاحت طلب امر یہ ہے کہ مہنگائی کا یہ کیسا تناسب ہے کہ تنخواہوں میں دس فی صد اور پنشن میں سات فی صد اضافہ سے پورا ہو جاتا ہے جب کہ ملک کے با وسائل اور سرمایا دار طبقہ سے تعلق رکھنے والے وفاقی کابینہ مجلس شوریٰ کے ایوان بالا، سینیٹ اور ایوان زیریں، قومی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور ان گنت دیگر مراعات میں آٹھ سو فی صد تک اضافہ اس متناسب نظام میں ضروری قرار پاتا ہے اس نا انصافی کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف جیسا شخص بھی اس پر پھٹ پڑا ہے اور چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ اور مراعات میں بجٹ سے قبل پانچ سو فی صد کے بے پناہ اضافہ کو مالی فحاشی کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عام آدمی کی زندگی کو ذہن میں رکھنا چاہیے کیونکہ ہماری تمام عزت و آبرو اسی عام آدمی کی مرہون منت ہے۔ شکر ہے نام جپنے کی حد تک ہی سہی ہمارے وزیر دفاع کو عام آدمی یاد تو ہے ورنہ عام انتخابات میں عام آدمی کی رائے کا جو حشر کیا گیا اس کے بعد عام آدمی کے تذکرہ کا برائے نام بھی کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ یوں بھی پانچ سو فی صد تک اضافہ کی وکالت کرنے والے ہمارے محترم وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں عام آدمی کے کم سے کم معاوضہ کا ذکر تک زبان پر لانا مناسب نہیں سمجھا اور ان کی وضاحتی پریس کانفرنس میں جب اس ضمن میں استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے 37 ہزار روپے کی کم سے کم معاوضہ کی حد ہی اس سلسلے میں کافی اور لاگو ہے معلوم نہیں کہ اس غریب ترین طبقہ کے لیے وزیر خزانہ اپنے مہنگائی سے منسلک کرنے کے فارمولے تک کو کیوں بھول گئے۔ ویسے کون نہیں جانتا کہ کم از کم معاوضہ کا یہ اعلان برائے اعلان سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور حکومت کی جانب سے اپنے اس اعلان پر عملدرآمد کروانے کے لیے سال ہا سال سے کوئی عملی قدم نہ اٹھانے کے سبب آج بھی بے روز گاری کے مارے غریب لوگ مقررہ معاوضہ سے نصف تک پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں!
حکومتی اخراجات میں کمی کے دعوے وزیر اعظم بھی اپنی اکثر تقریروں میں کرتے رہتے ہیں اور وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ سے متعلق وضاحتی پریس کانفرنس میں بھی دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی اخراجات میں جتنی کمی کر سکتے تھے ہم نے کی ہے مگر اس دعوے سے متعلق زمینی حقائق خاصے مختلف ہیں اور جو میزانیہ برائے 2025-26ء وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے اس کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے نمایاں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے اور کابینہ کے جاری اخراجات میں موجودہ سال کے مقابلے میں اگلے برس دو گنا اضافہ کیا گیا ہے تنخواہوں اور مراعات کے لیے کابینہ کا بجٹ 35 کروڑ 18 لاکھ سے بڑھا کر 68 کروڑ 87 لاکھ روپے، وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے مختص رقم 27 کروڑ سے بڑھا کر 50 کروڑ 54 لاکھ روپے، وزیر اعظم کے مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے تین کروڑ 61 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 کروڑ 31 لاکھ روپے اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی خدمات کے صلہ میں تین کروڑ 70 لاکھ روپے کے بجائے گیارہ کروڑ 34 لاکھ روپے ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے اشرافیہ کے دیگر طبقات کے اخراجات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔ آئندہ برس کے میزانیہ میں اشرافیہ کے لیے بے دریغ نوازشات کی بارش اور عام سرکاری ملازمین اور غربت و مہنگائی کے مارے ہوئے نچلے طبقات کے لیے وسائل کی عدم دستیابی کا جو ڈھنڈورا وزیر خزانہ پیٹ رہے ہیں یہ حکومت کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ:
وفاقی وزیر خزانہ
پریس کانفرنس میں
کی تنخواہوں اور
اخراجات میں
قومی اسمبلی
ارب روپے کا
اور مراعات
لاکھ روپے
کیا گیا
گیا ہے
کے لیے
پڑھیں:
چیئرمین سینیٹ، اسپیکر کی تنخواہ ساڑھے 21 لاکھ کیوں کی؟ وزیر خزانہ نے جواب دیدیا
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ بڑھانے کی وجہ بتادی۔
جیو نیوز سے گفتگو میں محمد اورنگزیب نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ اضافے کے بعد ساڑھے 21 لاکھ روپے کرنے کے سوال پر جواب دیا۔
انہوں نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی تنخواہ ڈھائی لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے 21 لاکھ کرنے کی وجہ 9 سال سے اضافہ نہ ہونا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے جواب دیا کہ آخری بار کابینہ اور اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافہ 2016ء میں ہوا تھا، ہر سال 6 فیصد اوسط کی شرح سے مہنگائی ہوئی ہے۔
محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ اگر تنخواہ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہتا تو یکدم زیادہ اضافے کی بات نہ ہوتی۔