پاکستان کے زر مبادلہ کے سیال ذخائر میں 167 ملین ڈالر کا اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
کراچی:
پاکستان کے زرمبادلہ کے سیال ذخائر میں گزشتہ ہفتے 167 ملین ڈالر کا اضافہ ہوا، جس کے بعد مجموعی سیال ذخائر کا حجم 11,675.6 ملین ڈالر ہو گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زر مبادلہ کے مجموعی سیال ذخائر 6 جون 2025 کو 16,875.0 ملین ڈالر تھے، اسی طرح جن میں مرکزی بینک کی تحویل میں زر مبادلہ کے ذخائر 11,675.
کمرشل بینکوں کی تحویل میں زرِمبادلہ کے سیال ذخائر 5,199.4 ملین ڈالر ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ 6 جون 2025 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے ذخائر 167 ملین ڈالر اضافے سے 11,675.6 ملین ڈالر ہو گئے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زر مبادلہ کے سیال ذخائر پاکستان کے ملین ڈالر
پڑھیں:
پاکستان بزنس فورم کا وزیراعظم سے ڈالر کو فوری کنٹرول کرنے کا مطالبہ
ایک بیان میں چیف آرگنائزر پاکستان بزنس فورم احمد جواد نے کہا کہ ملکی قرض کی ادائیگی پر 3 کھرب روپے کا اضافی بوجھ پڑرہا ہے، یہ رقم عوامی فلاح و بہبود اور انفراسٹرکچر پر خرچ کی جاسکتی ہے، شرح سود میں کمی سے پاکستانی برآمدات کو عالمی منڈیوں میں جگہ ملے گی اسلام ٹائمز۔ چیف آرگنائزر پاکستان بزنس فورم احمد جواد نے وزیراعظم سے ڈالر کو فوری طور پر کنٹرول کرنے کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا جارہا ہے، معاشی اشاریوں کے مطابق ڈالر 260 روپے کا ہونا چاہیئے۔ چیف آرگنائزر پاکستان بزنس فورم احمد جواد نے کہا کہ معیشت 283 روپے پر نہیں چل سکتی، اصل ریلیف تب ہی آئیے گا جب روپیہ مضبوط ہوگا، مہنگائی 4 فیصد، کنزیومر پرائس انڈیکس 3 فیصد پر آگیا، شرح سود 11 فیصد رکھنا غیر منطقی ہے، اگلی مانیٹری پالیسی میں شرح سود کم ازکم 9 فیصد پر لائی جائے، حکومت 50 کھرب روپے کے ملکی قرض پر 11 فیصد سود ادا کررہی ہے، جو سالانہ مہنگائی کی شرح 5 سے 6 فیصد زیادہ ہے۔
احمد جواد نے کہا کہ ملکی قرض کی ادائیگی پر 3 کھرب روپے کا اضافی بوجھ پڑرہا ہے، یہ رقم عوامی فلاح و بہبود اور انفراسٹرکچر پر خرچ کی جاسکتی ہے، شرح سود میں کمی سے پاکستانی برآمدات کو عالمی منڈیوں میں جگہ ملے گی، آئی ایم ایف بھی شرح سود مہنگائی کی شرح کے قریب رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے، صرف ٹیکسٹائل سے کام نہیں چلے، برآمدات بڑھانے کیلئے نئے سیکٹر ڈھونڈنا ہوں گے، کاروباری طبقہ مایوس ہے، پالیسی ساز پیداواری شعبے کو نظر انداز کررہے ہیں، توقع ہے 30 جولائی کو مانیٹری پالیسی اجلاس میں حقیقت پسندانہ موقف اپنایا جائیگا۔