نیویارک (اوصاف نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک نئی ویب سائٹ لانچ کر دی ہے، جس کے ذریعے غیر ملکی شہری ’گولڈ کارڈ‘ کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کر سکتے ہیں۔ یہ کارڈ امریکی شہریت کی طرف ایک خصوصی راستہ فراہم کرے گا، بشرطیکہ درخواست دہندہ امریکی حکومت کو پانچ ملین ڈالر ادا کرے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر اعلان کرتے ہوئے لکھا۔ ’پانچ ملین ڈالر کے عوض، ٹرمپ کارڈ آ رہا ہے! ہزاروں لوگ فون کر کے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کیسے دنیا کے عظیم ملک اور مارکیٹ میں داخل ہو سکتے ہیں؟‘

گولڈ کارڈ کیا ہے؟

’ٹرمپ کارڈ‘ ایک خصوصی ریزیڈنسی پرمٹ ہے جو اپریل میں پہلی بار منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس پر ٹرمپ کی تصویر اور جملہ ’The Trump Card‘ درج ہے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ کارڈ ممکنہ طور پر موجودہ EB-5 ویزا پروگرام کی جگہ لے گا، جس کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کار امریکی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔

ای بی 5 (EB-5) ویزا کے برعکس، جس میں 8 لاکھ ڈالرز سے 1.

05 ملین کی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے، ٹرمپ کارڈ کی قیمت سیدھی پانچ ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کارڈ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو سکتے ہیں، جو امریکی قرضے اتارنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

ویب سائٹ پر صرف ابتدائی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی گئی ہے، جس میں نام، علاقہ، ای میل ایڈریس اور اور درخواست دہندہ خود کے لیے اپلائی کر رہا ہے یا کسی بزنس کے لیے پوچھا جاتا ہے۔

ویب سائٹ آٹھ مختلف عالمی خطوں سے رجسٹریشن قبول کر رہی ہے، ’یورپ، ایشیا (مشرق وسطیٰ سمیت)، شمالی امریکہ، اوشیانا، وسطی امریکہ، جنوبی امریکہ، کیریبین اور افریقہ۔‘

ویب سائٹ https://trumpcard.gov/ پر واضح کیا گیا ہے کہ فی الحال صرف رجسٹریشن کی جا رہی ہے، اور جب باقاعدہ درخواستیں کھلیں گی تو رجسٹرڈ افراد کو سب سے پہلے مطلع کیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ یہ کارڈ اُن سرمایہ کاروں کے لیے ہو گا جو امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا کریں اور قانونی طریقے سے شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ روسی ارب پتی بھی اس کارڈ کے اہل ہو سکتے ہیں۔
دنیا سے مایوس چینی شخص نے نوکری اور گھر بار چھوڑ کرپہاڑوں کا رخ کرلیا، غار میں پناہ لے لی

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ملین ڈالر سکتے ہیں ویب سائٹ یہ کارڈ ٹرمپ کا کے لیے

پڑھیں:

کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟

اسلام ٹائمز: خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں مذاکرات جاری ہیں اور بظاہر بات ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے حق سے مکمل طور پر  دستبردار ہو جائے۔ اسی طرح اب تک جو یورینیم افزودہ کرچکا ہے، وہ بھی کسی تیسرے ملک بھجوا دی جائے۔ ایرانی موقف یہ ہے کہ ہم یورینیم افزودگی کے بین الاقوامی قانون کے تحت حاصل حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ روس نے تجویز دی ہے کہ ایران نے جو یورینیم قانونی حد سے زیادہ افزودہ کر لی ہے، وہ ہم لینے کے لیے تیار ہیں اور اسے انرجی کے سول استعمال کے قابل کرکے ایران کو واپس کر دیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کے غلط خیال کے مطابق اب ایران کمزور ترین پوزیشن پر ہے۔ حزب اللہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور لبنان کی حکومت، فوج اور انتہاء پسند فرقہ پرست اس کے خلاف ہیں، ساتھ اسرائیل کا براہ راست دباو بھی ہے۔

شام میں اسرائیل اور امریکی مشترکہ پروجیکٹ حکومت ہے، جو ہر طرح کی خدمت کے لیے آمادہ و تیار ہے۔ یہاں سے حزب اللہ کی سپلائی لائن بھی کٹ چکی ہے۔اسی طرح عراق میں کردوں اور داعش کا خطرہ دکھا کر عراقی ریاست کو حشد الشعبی کے خلاف کارروائی پر اکسایا جا رہا ہے۔ حشد الشعبی اور ریاست کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عراق کے عوام اور ریاست کی یاداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ یہ بھول جائے کہ جب داعش بغداد سے محض کچھ کلومیٹر دور تھی اور کربلا و نجف خطرے میں چلے گئے تھے، ایسے وقت میں مرجعیت کے فتویٰ کے نتیجے میں یہ حشد الشعبی کے جوان تھے، جنہوں نے عراق کے جغرافیے کو بچایا تھا۔

عرب ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں، انہیں ایٹمی اسرائیل قبول ہے، ایٹمی ایران کسی صورت قبول نہیں ہے۔ یہ فرقہ پرستی اور عرب و عجم کی تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ان لوگوں نے جنگ کے خرچے تک امریکہ و اسرائیل کو آفر کر رکھے ہیں۔ یہاں کا ریاستی بندوبست ہی امریکی مدد سے قائم ہے، آج امریکی حمایت ختم ہو تو یہاں قائم بادشاہتوں کا دھڑم تختہ ہو جائے۔ عرب ممالک اسلام کی بنیاد پر قائم کسی بھی حکومت یا تحریک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں اسلامی جمہوری ایران کا ایٹمی طاقت بن جانا خطے میں آزادی پسندوں کے لیے مستقل مددگار پیدا ہونے جیسا ہے، یہ بات طے ہے کہ امریکہ ہر صورت میں ایران کو بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک  ایسا ایران چاہتا ہے، جس کے پاس کسی قسم کی کوئی دفاعی طاقت نہ ہو، جس کی وجہ سے وہ اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور نہ ہی اہل فلسطین کی کوئی مدد کر سکے۔

موجودہ امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں ہیرو بن جائیں، اس لیے ایران پر حملہ کر دیا جائے۔ ان کے لیے حملہ کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مذاکرات کے دوران دہشت پیدا کرکے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ یہ تو لاس اینجلس میں فسادات شروع ہوگئے، ورنہ آج سارا امریکی میڈیا ایران کے خطرے کو ہی بیان کر رہا ہوتا۔ خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔

ابھی جلد از جلد ایٹمی معاملے پر فیصلہ کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے متعلق جو دستاویزات محفوظ کی ہیں، وہ بہت سے خطرناک رازوں سے پردہ ہٹانے والی ہیں۔ کچھ یورپی ممالک کے نام بھی اس لسٹ میں آرہے ہیں۔ ان دستاویزات کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھ لگنے کی خبروں نے خطے کے ممالک اور بہت سے یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ اس سے جہاں اسرائیل کی سکیورٹی کے فول پروف ہونے کا بیانیہ تہس نہس ہوا ہے، اسی طرح دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی آسکتی کہ کون کون سے ممالک اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے میں ملوث ہیں۔ یورپ اور امریکہ خود تو مشرق وسطی میں اسرائیل کو ایٹمی صلاحیتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہے تھے اور دوسرے ممالک کے لیے اقوام متحدہ کی جائز قانونی حد میں بھی یورینیم کی افزودگی کے قائل نہیں ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے بارے میں کہا کہ اگر توجہ ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہو اور مقصد ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کو یقینی بنانا ہو تو یقیناً معاہدہ نہ صرف قابلِ حصول ہے بلکہ بہت جلد ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے قانونی حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ایک اور نقطہ بھی قابل توجہ ہے، کچھ عرصے سے جنگ کا مرکز یوکرین بن گیا ہے، یورپ کا ارادہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح اسے دوبارہ مسلمان خطوں میں لے جایا جائے۔ اس حوالے سے فی الحال ایران کے لیے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے مقابل میں اتنی تعریفیں سن کا ڈر لگتا ہے، کیونکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہمیں تو اکہتر کا تجربہ بھی ہے، جب ہم بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے اور بنگلہ دیش بن گیا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ انتظامیہ نے گرین کارڈ پالیسی تبدیل کردی، امریکا میں مقیم غیر ملکیوں کو کیا کرنا ہوگا؟
  • امریکا کا گرین کارڈ پالیسی میں فوری تبدیلی کا اعلان
  • پاکستانی وفد آئندہ ہفتے تجارت پر گفتگو کے لیے امریکہ آرہا ہے، صدر ٹرمپ کی تصدیق
  • پاکستان کے زر مبادلہ کے سیال ذخائر میں 167 ملین ڈالر کا اضافہ
  • 5 ملین ڈالر میں امریکا کی مستقل شہریت، ویب سائٹ کا آغاز
  • ٹرمپ نے ’گولڈ کارڈ‘ کیلئے ویب سائٹ لانچ کردی، اپلائی کیسے کریں؟
  • کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟
  • ٹرمپ اپنے دورِ صدارت میں مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کا انکشاف
  • امریکہ میں انارکی کی اجازت نہیں دی جائے گی، صدر ٹرمپ کا دوٹوک اعلان