اسرائیل کیساتھ ساتھ امریکا کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑیگی، بریگیڈئیر جنرل ابوالفضل شکارچی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
ایران پر اسرائیلی حملے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے ایرانی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دشمن نے ایران پر حملہ کرکے سنگین غلطی کی ہے، ایران بھرپور جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے یہ حملے امریکا کی مدد سے کیے۔ اب دشمن ایران کے جواب کا انتظار کرے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے ترجمان کا باضابطہ ردعمل سامنے آیا ہے، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ایرانی فوج کے ترجمان کے مطابق اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکا کو بھی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، بریگیڈئیر جنرل ابوالفضل شکارچی نے کہا کہ دشمن نے ایران پر حملہ کرکے سنگین غلطی کی ہے، ایران بھرپور جواب دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے یہ حملے امریکا کی مدد سے کیے۔ اب دشمن ایران کے جواب کا انتظار کرے۔
اسرائیلی میڈیا نے ایرانی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای تقریباً آدھے گھنٹے میں اسرائیل کے خلاف جنگ کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔ ایرانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللّٰہ علی خامنہ ای خیریت سے ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر کو اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا، جبکہ اسرائیلی وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ ایرانی ردعمل چند گھنٹوں میں ممکن ہے، اندازہ یہ ہے کہ پہلے حملے میں سینکڑوں بیلسٹک میزائل اسرائیلی سرزمین کی طرف داغے جائیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ اسرائیل
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ سیکیورٹی معاہدہ آئندہ چند دنوں میں ممکن ہے؛ شامی صدر
شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی مذاکرات ناگزیر ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس کے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شامی صدر نے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ممکنہ معاہدے میں شام کی فضائی حدود اور علاقائی سالمیت کا احترام اور اس پر اقوام متحدہ کی نگرانی بھی لازمی طور پر شامل ہوگی۔
صحافیوں سے گفتگو میں شامی صدر نے مزید کہا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان حالیہ بات چیت بنیادی طور پر 1974 کے سیکیورٹی معاہدے کی بحالی کے لیے ہے۔
شام کے عبوری صدر نے مزید کہا کہ شام ایک ایسے معاہدے کی تلاش میں ہے جو 1974 کے معاہدے سے مشابہ ہو، البتہ فی الحال اسرائیل کے زیر قبضہ جولان کی پہاڑیوں پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی، جنہیں اسرائیل نے 1981 میں غیر قانونی طور پر ضم کرلیا تھا۔
انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جولائی میں السویدا میں ہونے والی جھڑپوں سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان ایک سیکیورٹی معاہدہ محض چار سے پانچ دن کے فاصلے پر تھا۔
خیال رہے کہ امریکا نے شام کی نئی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
تاہم احمد الشرع کا کہنا تھا کہ امریکا نے شام پر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا بلکہ صرف سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں شام میں فوجی اہداف کو بھی نشانہ بنایا جن میں جولائی میں دمشق کی وزارت دفاع پر بمباری بھی شامل ہے۔
اسی دوران اسرائیل نے السویدا میں دروز ملیشیاؤں کی پشت پناہی بھی کی، جس سے شام کی افواج اور مقامی قبائل کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی تھی۔
جس پر احمد الشرع کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل نے دسمبر سے اب تک شام میں ایک ہزار سے زائد فضائی حملے اور چار سو سے زیادہ زمینی کارروائیاں کی ہیں جو انتہائی خطرناک بات ہے۔
ادھر اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ شام کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل شام کے جنوب مغربی حصے میں ایک غیر عسکری زون اور نو فلائی زون بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جس کے بدلے میں اسرائیل دسمبر کے بعد قبضے میں لی گئی شامی زمین چھوڑنے پر آمادہ ہے لیکن اسرائیل جبل الشیخ (ہرمن پہاڑ) کی چوٹی پر قائم اپنی فوجی چوکی برقرار رکھنے پر بھی مصر ہے۔
یاد رہے کہ 9 ماہ قبل احمد الشرع کی قیادت میں مسلح گروپوں نے شام میں بشار الاسد کے طویل اقتدار کا خاتمہ کرکے انھیں روس فرار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔
اس بغاوت کے بعد ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے سربراہ احمد الشرع کو مقرر کیا گیا اور اس حکومت کو سعودی عرب، امریکا اور دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔