Daily Ausaf:
2025-07-29@05:16:08 GMT

یوکرائن کے حالات… پاکستان کیلئے عبرت

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

دنیا کی معاصر تاریخ ہمیں ایسے بے شمار واقعات سے روشناس کراتی ہے جو آنے والی اقوام کے لیے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق عبرت کے انمول موتیوں سے بھرے پڑی ہیں۔ یوکرائن کا ایٹمی طاقت سے دستبردار ہو کر آج روسی جارحیت کا شکار ہونا، ایک ایسا ہی سبق ہے جو پاکستان سمیت تمام خودمختار ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یوکرائن سے ایٹمی طاقت کیا گئی کہ اپنی خودمختاری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ تاریخ کا ایسا زخم ہے جسے نظرانداز کرنا کسی آزاد ریاست، بالخصوص پاکستان کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہوا کچھ یوں کہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن کے پاس 1,900 ایٹمی وار ہیڈز تھے، مگر 1994 میں بوداپسٹ میمورنڈم پر دستخط کرکے اس نے اپنی ایٹمی طاقت ترک کر دی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس کی دی گئی ضمانتیں 2014 میں کریمیا پر قبضے اور 2022 کی مکمل جنگ میں کھوکھلی ثابت ہوئیں۔ اس تناظر میں ہمارے لیے کچھ پہلو غور طلب ہیں۔ پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی ’’کم سے کم قابل اعتماد ردعمل‘‘ Minimum Credible Deterrence (MCD) کی پالیسی اپنائی۔ آج ہمارے پاس 170 ایٹمی وار ہیڈز ہیں جو زمینی، بحری اور ہوائی ذرائع سے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کی اہمیت کا شعور بہ خوبی ہونا چاہیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض ایک عسکری ہتھیار نہیں، بلکہ یہ ہماری قومی سلامتی، جغرافیائی آزادی اور خطے میں توازنِ قوت کا ضامن ہے۔
ہماری ایٹمی طاقت بھارت کے جنگی جنون اور خطے میں عدم توازن کی خواہش کو لگام دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے قوم کی بقاء، خودمختاری، اور قومی وقار کی علامت بن چکے ہیں۔ اگر پاکستان نیوکلیئر پاور نہ ہوتا تو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں محتاط اور سنجیدہ رویہ اختیار کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ایٹمی اثاثوں کو اپنی قومی غیرت اور خودمختاری کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ اثاثے دشمن کے سامنے ایک نفسیاتی رکاوٹ بھی ہیں اور قوم کے لیے فخر کا باعث بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت کی موجودگی نے دشمن کو کئی بار جارحیت سے باز رکھا۔ کارگل، ممبئی حملوں، اور پلوامہ جیسے واقعات کے بعد بھی اگر مکمل جنگ نہ ہو سکی تو اس میں ایٹمی اثاثوں کی موجودگی کا بڑا کردار تھا۔ یوکرائن کے المیے سے ہمیں تین اہم سبق ملتے ہیں:
1.

ایٹمی طاقت کسی ملک کی خودمختاری کی سب سے بڑی ضمانت ہے 2. بین الاقوامی ضمانتیں عملی طور پر بے معنی ہوتی ہیں 3. اندرونی استحکام دفاعی صلاحیتوں کی بنیاد ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثے پہلے ہی محفوظ ہیں لیکن اسے اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے مزید فوری اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو جدید ترین سائبر سیکیورٹی سے لیس کیا جائے۔ ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے اسپیشل سیکیورٹی فورسز کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے۔ جوہری پروگرام سے وابستہ افراد کے لیےHuman Reliability Program کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔ یوکرائن کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو قومیں اپنی حفاظت دوسروں کے حوالے کر دیتی ہیں، وہ تاریخ کے صفحات میں عبرت کی علامت بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ہماری خودمختاری کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت ہی امن کی ضمانت ہے، اور ایٹمی صلاحیت ہماری قومی بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ایٹمی اثاثوں کا تحفظ صرف فوجی یا سائنسی دائرہ تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک قومی ذمہ داری ہے، جس میں سیاسی استحکام، معاشی خود انحصاری، ادارہ جاتی مضبوطی اور اندرونی وحدت بنیادی ستون ہیں۔ اگر قوم اندر سے کمزور ہو جائے، اگر سیاستدان اداروں کو متنازع بنائیں، اگر معیشت بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہو اور اگر معاشرہ فکری انتشار کا شکار ہو، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ایٹمی ہتھیاروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ یوکرائن کی تاریخ ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس قوم نے زبانی وعدوں پر بھروسہ کیا اور اپنے اثاثے کھو بیٹھی۔ لھذا ہمیں قوم کو باور کراناہوگا کہ ایٹمی اثاثے محض فوجی طاقت نہیں، بلکہ قومی وقار اور اجتماعی عزت کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے جو قومی مفاد پر مبنی ہو۔ دوستی سب سے، لیکن ایٹمی تحفظ کسی سمجھوتے کے بغیر۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی سبق کو یاد رکھے اور کبھی کسی بین الاقوامی دباؤ کے آگے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہ کرے۔
ہمارا ایٹمی پروگرام ہماری بقاء، عزت، خودمختاری اور آنے والی نسلوں کی ضمانت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہوں، اپنی صفوں کو درست کریں، اندرونی کمزوریوں کو ختم کریں، اور دنیا کو واضح پیغام دیں:
’’پاکستان ایٹمی طاقت ہے، اور ہمیشہ رہے گا!‘‘

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام ایٹمی اثاثوں پاکستان کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ضمانت ہے کی علامت کے لیے

پڑھیں:

حکومتی کوششوں سے قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے، اسحق ڈار

بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں، ہمارا ہدف جی 20 میں شمولیت ہے، نائب وزیراعظم
زر مبادلہ کے ذخائربڑھ رہے ہیں، مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ، ڈیفالٹ کاخطرہ دفن کر دیا ، خطاب

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومتی کوششوں کے نتیجہ میں قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں، ہم افغانستان کے خیر خواہ ہیں ان کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں، افغانستان سے کہا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، ملک سے دہشتگردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کیلئے پرعزم ہیں، علاقائی روابط کو فروغ دیا جا رہا ہے، سفارتی سطح پر اس وقت پاکستان بہت متحرک ہے، ہمارا ہدف ملک کی جی 20 میں شمولیت ہے، ملک میں معاشی استحکام آ چکا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل بڑھ رہے ہیں، مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، ڈیفالٹ کے خطرے کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا گیا ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان شیخ اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب عاصم افتخار ، قونصل جنرل سمیت پاکستانی برادری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ چندماہ کے وقفے کے بعد پاکستانی برادری سے دوبارہ ملاقات باعث افتخار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ ملاقات فروری میں ہوئی تھی ، اس وقت میں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مستقبل کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا تھا اور شاید اس وقت آپ زیادہ پراعتماد نہ ہوں لیکن اگر آپ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات کا موازنہ کریں تو آپ کہیں زیادہ اعتماد محسوس کریں گے۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں ہماری حکومت کو اس وقت معاشی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا ، پاک بھارت تنازعہ بعد میں سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کے حوالے سے بہت بہتری آئی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ 2017 میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان معاشی طور پر کہیں بہتر پوزیشن میں تھا، انہوں نے 2013 میں جب حکومت سنبھالی تو میکرواکنامک مشکلات کے علاوہ چند ہفتوں کے زرمبادلہ کے ذخائر اور شرح نمو کی کمی ، دوہرے ہندسے کا افراط زر اور ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ تھا لیکن مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 4 سال کے عرصہ میں نمایاں معاشی اور اقتصادی کامیابیاں حاصل کیں۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت عالمی اقتصادی ماہرین کا تجزیہ تھا کہ پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکلنے میں 12 تا 15 سال درکار ہوں گے لیکن ہم نے اس سے کہیں کم عرصہ میں مشکلات پر قابو پایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت زیادہ لچک ہے اور پاکستان نے 2017 تک ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف اصلاحات کا پروگرام مکمل کیا۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح دوہرے ہندسے سے 3.59 فیصد کی شرح تک کم ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح تک بڑھ گئے اور جی ڈی پی کی شرح نمو 6.3 فیصد تک پہنچ چکی تھی اور ہم 7 تا 8 فیصد تک کا تخمینہ لگا چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں کئی معاشی ریکارڈ توڑیں گے جس کیلئے دن رات محنت کی جا رہی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے 12 تا 15 سال کے عرصہ کی پیشگوئیوں کے مقابلہ میں 3 سال کے قلیل عرصہ میں نمایاں معاشی کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا اور کئی عالمی ادارے کہہ رہے تھے کہ پاکستان 2030 سے قبل جی 20 میں شامل ہونے کی استعداد رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017 تا 2022 کے عرصہ کے دوران پاکستان کی معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا ، سیاسی تبدیلیوں کے خوفناک نتائج سامنے آئے اور دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت 47 ویں درجے تک تنزلی کر گئی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کہ ہم اس وقت کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کریں یا نہ کریں کیونکہ ملک کی معیشت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی قیادت سمجھتی تھی کہ اگر صورتحال برقرار ہی تو خدانخواستہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرسکتا ہے جبکہ بعض عالمی طاقتیں بھی چاہتی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے لیکن الحمد للہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آگئے۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس وقت ایک مشکل فیصلہ کیا اور بطور پارٹی سربراہ عدم اعتماد کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالا۔

متعلقہ مضامین

  • مسئلہ کشمیر پاکستان کا قومی کاز‘ حل کئے بغیر ایشیا میں امن ناممکن: قاسم نون
  • حکومتی کوششوں سے قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے، اسحق ڈار
  • بلوچستان لانگ مارچ روکنا حالات خراب کرنے کی کوشش ہے ،حافظ نعیم الرحمن
  • ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کیلئے وزیراعظم کا قومی پروگرام شروع کیا جا چکا ہے؛ وزیراعظم
  • صرف گولی و طاقت کا راستہ اختیار کرنا وقتی تسکین تو ہو سکتی ہے پائیدار امن کا ذریعہ نہیں، پی ٹی آئی
  • پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کے دورہ آئرلینڈ کیلئے حتمی کیمپ کل سے شروع ہوگا
  • وزیراعظم شہباز شریف کا قومی ہیروزکو نوازنے کیلئے بڑا فیصلہ
  • قومی کھلاڑیوں کیلئے بڑی خوشخبری، وزیراعظم کا انعامی رقوم میں ریکارڈ اضافے کا اعلان
  • ’’مشترکہ امن، خودمختاری اور تعاون کیلئے ہم متحد ہیں‘‘، پاک فوج کی میزبانی میں علاقائی دفاعی سربراہان کی کانفرنس
  • پی ٹی آئی رہنما جنید اکبر کی مبینہ آڈیو لیک، علی امین گنڈاپور پر سنگین الزامات