یوکرائن کے حالات… پاکستان کیلئے عبرت
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
دنیا کی معاصر تاریخ ہمیں ایسے بے شمار واقعات سے روشناس کراتی ہے جو آنے والی اقوام کے لیے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق عبرت کے انمول موتیوں سے بھرے پڑی ہیں۔ یوکرائن کا ایٹمی طاقت سے دستبردار ہو کر آج روسی جارحیت کا شکار ہونا، ایک ایسا ہی سبق ہے جو پاکستان سمیت تمام خودمختار ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یوکرائن سے ایٹمی طاقت کیا گئی کہ اپنی خودمختاری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ تاریخ کا ایسا زخم ہے جسے نظرانداز کرنا کسی آزاد ریاست، بالخصوص پاکستان کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہوا کچھ یوں کہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن کے پاس 1,900 ایٹمی وار ہیڈز تھے، مگر 1994 میں بوداپسٹ میمورنڈم پر دستخط کرکے اس نے اپنی ایٹمی طاقت ترک کر دی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس کی دی گئی ضمانتیں 2014 میں کریمیا پر قبضے اور 2022 کی مکمل جنگ میں کھوکھلی ثابت ہوئیں۔ اس تناظر میں ہمارے لیے کچھ پہلو غور طلب ہیں۔ پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی ’’کم سے کم قابل اعتماد ردعمل‘‘ Minimum Credible Deterrence (MCD) کی پالیسی اپنائی۔ آج ہمارے پاس 170 ایٹمی وار ہیڈز ہیں جو زمینی، بحری اور ہوائی ذرائع سے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کی اہمیت کا شعور بہ خوبی ہونا چاہیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض ایک عسکری ہتھیار نہیں، بلکہ یہ ہماری قومی سلامتی، جغرافیائی آزادی اور خطے میں توازنِ قوت کا ضامن ہے۔
ہماری ایٹمی طاقت بھارت کے جنگی جنون اور خطے میں عدم توازن کی خواہش کو لگام دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے قوم کی بقاء، خودمختاری، اور قومی وقار کی علامت بن چکے ہیں۔ اگر پاکستان نیوکلیئر پاور نہ ہوتا تو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں محتاط اور سنجیدہ رویہ اختیار کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ایٹمی اثاثوں کو اپنی قومی غیرت اور خودمختاری کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ اثاثے دشمن کے سامنے ایک نفسیاتی رکاوٹ بھی ہیں اور قوم کے لیے فخر کا باعث بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت کی موجودگی نے دشمن کو کئی بار جارحیت سے باز رکھا۔ کارگل، ممبئی حملوں، اور پلوامہ جیسے واقعات کے بعد بھی اگر مکمل جنگ نہ ہو سکی تو اس میں ایٹمی اثاثوں کی موجودگی کا بڑا کردار تھا۔ یوکرائن کے المیے سے ہمیں تین اہم سبق ملتے ہیں:
1.
پاکستان کے ایٹمی اثاثے پہلے ہی محفوظ ہیں لیکن اسے اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے مزید فوری اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو جدید ترین سائبر سیکیورٹی سے لیس کیا جائے۔ ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے اسپیشل سیکیورٹی فورسز کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے۔ جوہری پروگرام سے وابستہ افراد کے لیےHuman Reliability Program کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔ یوکرائن کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو قومیں اپنی حفاظت دوسروں کے حوالے کر دیتی ہیں، وہ تاریخ کے صفحات میں عبرت کی علامت بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ہماری خودمختاری کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت ہی امن کی ضمانت ہے، اور ایٹمی صلاحیت ہماری قومی بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ایٹمی اثاثوں کا تحفظ صرف فوجی یا سائنسی دائرہ تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک قومی ذمہ داری ہے، جس میں سیاسی استحکام، معاشی خود انحصاری، ادارہ جاتی مضبوطی اور اندرونی وحدت بنیادی ستون ہیں۔ اگر قوم اندر سے کمزور ہو جائے، اگر سیاستدان اداروں کو متنازع بنائیں، اگر معیشت بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہو اور اگر معاشرہ فکری انتشار کا شکار ہو، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ایٹمی ہتھیاروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ یوکرائن کی تاریخ ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس قوم نے زبانی وعدوں پر بھروسہ کیا اور اپنے اثاثے کھو بیٹھی۔ لھذا ہمیں قوم کو باور کراناہوگا کہ ایٹمی اثاثے محض فوجی طاقت نہیں، بلکہ قومی وقار اور اجتماعی عزت کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے جو قومی مفاد پر مبنی ہو۔ دوستی سب سے، لیکن ایٹمی تحفظ کسی سمجھوتے کے بغیر۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی سبق کو یاد رکھے اور کبھی کسی بین الاقوامی دباؤ کے آگے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہ کرے۔
ہمارا ایٹمی پروگرام ہماری بقاء، عزت، خودمختاری اور آنے والی نسلوں کی ضمانت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہوں، اپنی صفوں کو درست کریں، اندرونی کمزوریوں کو ختم کریں، اور دنیا کو واضح پیغام دیں:
’’پاکستان ایٹمی طاقت ہے، اور ہمیشہ رہے گا!‘‘
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایٹمی پروگرام ایٹمی اثاثوں پاکستان کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ضمانت ہے کی علامت کے لیے
پڑھیں:
صبر کی فضیلت اور طاقت
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ عبد القیس کے سردار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ایک بردباری اور دوسری وقار اور سنجیدگی۔‘‘ (مسلم)
جب قبیلہ عبد القیس کا وفد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا چوں کہ کافی دور سے آئے تھے گردو غبار میں اٹے پڑے تھے۔ جب یہ وفد کے لوگ سواریوں سے اترے فوراً جلدی سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے نہ نہائے دھوئے نہ اپنے سامان کو قرینے سے رکھا‘ نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا‘ لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا بل کہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے رکھا۔
سواریوں کو دانہ پانی دیا پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی تعریف کی اور فرمایا، مفہوم:
’’بے شک! تمہارے اندر دو ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت وقار اور سنجیدگی ہے۔‘‘
حلم اور بردباری کا مفہوم اچھی طرح جب سمجھ آسکتا ہے، جب ہم اپنے اندر پائی جانے والی ایک مخصوص قوت کی پہچان اور اس قوت کے صحیح استعمال کا طریقہ معلوم کر لیں اور وہ غصہ کی قوت ہے۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا۔ یعنی ان قوتوں کے استعمال میں نہ بالکل کمی کی جائے۔ نہ ان قوتوں کا بے جا استعمال کیا جائے۔ اس میں سے ایک قوت غصہ کی ہے۔
اگر اس غصہ کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے۔ تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے اور اس سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگتے ہوئے خدائے عزوجل سے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے اﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘
لیکن اگر غصہ کی قوت کا ہر جگہ استعمال کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرے میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اہل معاشرہ کی زندگیوں سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ شخص آخرت میں اپنے لیے سزاؤں کے انبار تیار کر لیتا ہے‘ پھر آخر اس قوت کو کس طرح استعمال کیا جائے جب ہم اس کے استعمال کے بارے میں قرآنی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سورۂ آل عمران میں جہاں خدائے عزوجل اپنے محبوب بندوں کا تذکرہ فرماتے ہیں ارشاد باری ملتا ہے، مفہوم:
’’اور غصہ کو ضبط کر جانے والے لوگ اور لوگوں کو معاف کرنے والے لوگ اﷲ کے محبوب ہیں۔‘‘ یعنی جس کسی شخص کو تکلیف پہنچائی جائے یا مشقت پیش آئے تو وہ اشتعال انگیزی اور انتقام کے بہ جائے فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے برداشت کرے۔ اور درگزر کر دے پھر اپنی ذات سے یہ تاثر پیش کرے گویا مجھے کوئی مشقت تکلیف نہیں اس صفت کو حلم اور بردباری کہتے ہیں۔
حلم اور بردباری انسان کے اندر سب سے پہلے قوت برداشت پیدا کرتی ہے۔ چناں چہ جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول ہی دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت سے جھگڑے فساد صرف اسی صفت کے نہ ہونے کی بنا پر نظر آتے ہیں کہ ہمارے اندر حلم اور بردباری نہ ہونے کی وجہ سے قوت برداشت نہیں ہوتی یہاں تک کہ مارپیٹ اور قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے حلم و بردباری سے جو دوسری دولت ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ خود اعتمادی اور عزم کی دولت ہے۔ اور اس کا تذکرہ قرآن حکیم میں بھی ہے، مفہوم: ’’جو کوئی صبر کرے اور معاف کر دے تو یہ بڑی عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص حلم و بردباری کی صفت رکھتا ہو وہ ایک باہمت اور عزم و حوصلہ والا انسان ہوتا ہے۔ زندگی کی دن رات آنے والی مشکلات اور مصیبتیں جھیلنے کی اس کے اندر ایک مخصوص قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں مصیبتیں اور پریشانیاں اس کے لیے زندگی کو مزید مشکل نہیں بناتیں۔ کیوں کہ وہ ان تمام چیزوں کو برداشت کر کے اپنے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر پیدا کر لیتا ہے۔
یہاں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ حلم و درگزر کی تعلیم کا تعلق معاشرتی امور سے ہے۔ لیکن اگر کوئی فرد یا معاشرہ دنیا میں فساد اور گمراہی پھیلا رہا ہے یا اﷲ کی مقرر کردہ حدود کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص قطعاً حلم و درگذر کا مستحق نہیں۔ اس کے ساتھ نرمی کرنا بزدلی ہو گی اور خدائی قوانین کی حق تلفی ہو گی لہٰذا ان مواقع میں حلم و بردباری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
دوسری صفت جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدائے عزوجل کی پسندیدگی ظاہر فرمائی وہ سنجیدگی اور وقار ہے۔ یعنی خوب سوچ و بچار کے بعد کام کرنا‘ جلد بازی سے کام نہ لینا اس لیے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’وقار اور سنجیدگی اﷲ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے وہ اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔ جب کہ جلد بازی کا مظاہرہ کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور پھر اپنی جلد بازی کی بدولت اکثر شرمندگی اور نقصان کا سامنا کرتے ہیں۔
خدائے عزوجل ہمارے اندر اپنی پسندیدہ صفات پیدا فرما دے تاکہ ہم معاشرہ کے افراد کے لیے باعث رحمت و سکون بن جائیں اور آخرت میں بھی کام یابی سے ہم کنار ہوں۔ آمین