قومی ٹیم کے کپتان بابراعظم کا آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ (بی بی ایل) میں معاہدہ ہوگیا۔

فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر بگ بیش لیگ کی معروف فرنچائز سڈنی سکسرز نے بابراعظم کے ساتھ معاہدے کرلیا ہے، جس میں ممکنہ طور پر بابراعظم کی کٹ دیکھائی گئی ہے۔

فرنچائز سابق کپتان بابراعظم کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات جلد جاری کرے گی۔

مزید پڑھیں: ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ؛ بابراعظم کی "کور ڈرائیور" کے چرچے

واضح رہے کہ دو روز قبل پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بابر اعظم سمیت کئی قومی کرکٹرز کو مختلف لیگز کیلئے این او سی جاری کیا تھا۔

پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ بابراعظم کو بگ بیش لیگ (بی بی ایل) کیلئے 14 دسمبر تا 28 جنوری کیلئے این او سی جاری کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ابتدائی مشاورت میں 25 رکنی اسکواڈ منتخب! بابر، رضوان باہر

اس لیگ کیلئے فاسٹ بولر شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو بھی این او سی جاری ہوا ہے۔

فاسٹ بولر محمد عامر کو ایسیکس کاؤنٹی کیلئے 18 جولائی تک، شان مسعود کو لیسٹر شائر کیلئے یکم ستمبر تک جبکہ حسن علی کو واروکشائر کائونٹی کیلئے 30 ستمبر تک کا این او سی جاری کیا گیا ہے۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Sydney Sixers (@sixersbbl)

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: او سی جاری

پڑھیں:

یوکرائن کے حالات… پاکستان کیلئے عبرت

دنیا کی معاصر تاریخ ہمیں ایسے بے شمار واقعات سے روشناس کراتی ہے جو آنے والی اقوام کے لیے نشانِ عبرت بن جاتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق عبرت کے انمول موتیوں سے بھرے پڑی ہیں۔ یوکرائن کا ایٹمی طاقت سے دستبردار ہو کر آج روسی جارحیت کا شکار ہونا، ایک ایسا ہی سبق ہے جو پاکستان سمیت تمام خودمختار ممالک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یوکرائن سے ایٹمی طاقت کیا گئی کہ اپنی خودمختاری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ تاریخ کا ایسا زخم ہے جسے نظرانداز کرنا کسی آزاد ریاست، بالخصوص پاکستان کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہوا کچھ یوں کہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن کے پاس 1,900 ایٹمی وار ہیڈز تھے، مگر 1994 میں بوداپسٹ میمورنڈم پر دستخط کرکے اس نے اپنی ایٹمی طاقت ترک کر دی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس کی دی گئی ضمانتیں 2014 میں کریمیا پر قبضے اور 2022 کی مکمل جنگ میں کھوکھلی ثابت ہوئیں۔ اس تناظر میں ہمارے لیے کچھ پہلو غور طلب ہیں۔ پاکستان نے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی ’’کم سے کم قابل اعتماد ردعمل‘‘ Minimum Credible Deterrence (MCD) کی پالیسی اپنائی۔ آج ہمارے پاس 170 ایٹمی وار ہیڈز ہیں جو زمینی، بحری اور ہوائی ذرائع سے لانچ کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کی اہمیت کا شعور بہ خوبی ہونا چاہیے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محض ایک عسکری ہتھیار نہیں، بلکہ یہ ہماری قومی سلامتی، جغرافیائی آزادی اور خطے میں توازنِ قوت کا ضامن ہے۔
ہماری ایٹمی طاقت بھارت کے جنگی جنون اور خطے میں عدم توازن کی خواہش کو لگام دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے قوم کی بقاء، خودمختاری، اور قومی وقار کی علامت بن چکے ہیں۔ اگر پاکستان نیوکلیئر پاور نہ ہوتا تو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا۔ دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں محتاط اور سنجیدہ رویہ اختیار کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام ایٹمی اثاثوں کو اپنی قومی غیرت اور خودمختاری کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ اثاثے دشمن کے سامنے ایک نفسیاتی رکاوٹ بھی ہیں اور قوم کے لیے فخر کا باعث بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت کی موجودگی نے دشمن کو کئی بار جارحیت سے باز رکھا۔ کارگل، ممبئی حملوں، اور پلوامہ جیسے واقعات کے بعد بھی اگر مکمل جنگ نہ ہو سکی تو اس میں ایٹمی اثاثوں کی موجودگی کا بڑا کردار تھا۔ یوکرائن کے المیے سے ہمیں تین اہم سبق ملتے ہیں:
1. ایٹمی طاقت کسی ملک کی خودمختاری کی سب سے بڑی ضمانت ہے 2. بین الاقوامی ضمانتیں عملی طور پر بے معنی ہوتی ہیں 3. اندرونی استحکام دفاعی صلاحیتوں کی بنیاد ہے۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثے پہلے ہی محفوظ ہیں لیکن اسے اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے مزید فوری اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو جدید ترین سائبر سیکیورٹی سے لیس کیا جائے۔ ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے اسپیشل سیکیورٹی فورسز کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے۔ جوہری پروگرام سے وابستہ افراد کے لیےHuman Reliability Program کو مزید مؤثر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جائے۔ یوکرائن کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو قومیں اپنی حفاظت دوسروں کے حوالے کر دیتی ہیں، وہ تاریخ کے صفحات میں عبرت کی علامت بن جاتی ہیں۔ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ہماری خودمختاری کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طاقت ہی امن کی ضمانت ہے، اور ایٹمی صلاحیت ہماری قومی بقا کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ایٹمی اثاثوں کا تحفظ صرف فوجی یا سائنسی دائرہ تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک قومی ذمہ داری ہے، جس میں سیاسی استحکام، معاشی خود انحصاری، ادارہ جاتی مضبوطی اور اندرونی وحدت بنیادی ستون ہیں۔ اگر قوم اندر سے کمزور ہو جائے، اگر سیاستدان اداروں کو متنازع بنائیں، اگر معیشت بیرونی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہو اور اگر معاشرہ فکری انتشار کا شکار ہو، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ایٹمی ہتھیاروں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ یوکرائن کی تاریخ ہمارے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس قوم نے زبانی وعدوں پر بھروسہ کیا اور اپنے اثاثے کھو بیٹھی۔ لھذا ہمیں قوم کو باور کراناہوگا کہ ایٹمی اثاثے محض فوجی طاقت نہیں، بلکہ قومی وقار اور اجتماعی عزت کی علامت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے جو قومی مفاد پر مبنی ہو۔ دوستی سب سے، لیکن ایٹمی تحفظ کسی سمجھوتے کے بغیر۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تاریخی سبق کو یاد رکھے اور کبھی کسی بین الاقوامی دباؤ کے آگے اپنے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہ کرے۔
ہمارا ایٹمی پروگرام ہماری بقاء، عزت، خودمختاری اور آنے والی نسلوں کی ضمانت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہوں، اپنی صفوں کو درست کریں، اندرونی کمزوریوں کو ختم کریں، اور دنیا کو واضح پیغام دیں:
’’پاکستان ایٹمی طاقت ہے، اور ہمیشہ رہے گا!‘‘

متعلقہ مضامین

  • بابر اعظم کا بگ بیش فرنچائز سڈنی سکسرز کے ساتھ معاہدہ
  • قومی کرکٹر بابراعظم کا سڈنی سکسرز سے معاہدہ
  • یوکرائن کے حالات… پاکستان کیلئے عبرت
  • ابتدائی مشاورت میں 25 رکنی اسکواڈ منتخب! بابر، رضوان باہر
  • آئی ایم ایف کا قومی اسمبلی سے منظوری کے بغیر 344 ارب کے اضافی اخراجات پر تحفظات کا اظہار
  • پاکستانی باکسر لارا اکرم نے ورلڈ باکسنگ چیلنج کپ میں میڈل یقینی بنالیا
  • آئی ایم ایف کا قومی اسمبلی سے منظوری کے بغیر 344 ارب کے اضافی اخراجات پر تحفظات کا اظہار
  • بجٹ میں زراعت اور بزنس کمیونٹی کیلئے کوئی ریلیف نہیں: پی بی ایف
  • بابراعظم، رضوان اور شاہین کے ڈراپ ہونے پر بھارتی میڈیا جھوٹی خبریں پھیلانے لگا