ناسا اور یورپ کا انقلابی اشتراک: سورج کے راز افشا کرنے والا پہلا قریبی منظر
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس اور فلکیات کی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے۔ سورج، جو اربوں برس سے زمین اور ہمارے نظامِ شمسی کو توانائی فراہم کر رہا ہے، اب اپنے پوشیدہ ترین پہلو کو بھی انسان کے سامنے بے نقاب کرنے لگا ہے۔
ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے مشترکہ خلائی مشن نے پہلی بار سورج کے جنوبی قطب کی واضح اور ہائی ریزولوشن تصویر زمین پر منتقل کر دی ہے، جو نہ صرف سائنسی حلقوں میں سنسنی خیز دریافت سمجھی جا رہی ہے بلکہ کائناتی مشاہدات کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔
یہ شاندار کارنامہ سولر آربٹر نامی روبوٹک خلائی گاڑی نے انجام دیا ہے، جسے 2020 میں امریکی ریاست فلوریڈا سے خلا کی وسعتوں میں روانہ کیا گیا تھا۔ اس مشن کا بنیادی مقصد سورج کے گرد چکر لگا کر اس کے قطبین، خصوصاً کم مشاہدہ شدہ جنوبی اور شمالی خطوں کا باریکی سے جائزہ لینا تھا۔
گزشتہ کئی مہینوں کی مسلسل محنت اور خلائی ٹیکنالوجی کی اعلیٰ صلاحیتوں کا نتیجہ ہے کہ مارچ 2025 میں جب سورج اپنی فلکیاتی فعالیت کے عروج پر تھا، آربٹر نے تقریباً 6 کروڑ 43 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے سورج کے جنوبی قطب کی حیران کن تصویریں لیں۔
یورپین اسپیس ایجنسی نے گزشتہ دنوں ان تصاویر کو باضابطہ طور پر جاری کیا، جن میں سورج کے جنوبی قطب پر موجود میگنیٹک میدان، شمسی طوفانوں کے ابتدائی آثار، اور درجہ حرارت کی تبدیلیوں جیسے اہم مشاہدات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ان تصاویر کو خلائی گاڑی پر نصب تین انتہائی حساس سائنسی آلات کے ذریعے عکس بند کیا گیا، جو سورج کی شعاعوں اور مقناطیسی لہروں کا اعلیٰ ترین تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ دریافت اس لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اب تک سورج کے قطبین کا مطالعہ بہت ہی محدود انداز میں کیا گیا تھا۔ زمین سے بھیجے جانے والے مشاہداتی آلات سورج کے مرکزی خطِ استوا کے قریب کی سرگرمیوں پر تو نگاہ رکھ سکتے تھے، مگر قطبین کی مخصوص ساخت اور شمسی مظاہر کی جھلک حاصل کرنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ اب جب کہ سولر آربٹر نے یہ رکاوٹ عبور کر لی ہے، تو سائنسدانوں کو سورج کے اندرونی نظام، اس کی مقناطیسی فعالیت اور سورج کی 11 سالہ سائیکل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تصاویر اس وقت لی گئیں جب سورج شمسی سائیکل کے سب سے سرگرم مرحلے میں داخل ہو رہا تھا، یعنی اس وقت جب شمسی طوفان، دھماکے، اور مقناطیسی تبدیلیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ ان لمحات کی تصویری دستاویز نہ صرف شمسی فزکس کی تفہیم میں انقلاب لا سکتی ہے بلکہ زمین پر پڑنے والے اثرات ، جیسے کہ سیٹلائٹ نیویگیشن، پاور گرڈز اور مواصلاتی نظام پر شمسی طوفانوں کے اثر کو بھی مزید بہتر انداز میں سمجھنے اور محفوظ بنانے میں مدد دے گی۔
یورپین اسپیس ایجنسی کے حکام کے مطابق شمالی قطب سے حاصل شدہ ڈیٹا تاحال خلائی گاڑی سے زمین پر منتقل کیا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس ڈیٹا کا تجزیہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
یہ مرحلہ سائنسدانوں کے لیے نہایت اہم ہو گا کیونکہ دونوں قطبین کا موازنہ کر کے سورج کی مکمل میگنیٹک ساخت، اس کے اندرونی ڈائنامکس اور اس کے توانائی خارج کرنے کے طریقہ کار کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے گا۔
یہ خلائی مشن صرف سائنسی حد تک محدود نہیں بلکہ تکنیکی مہارت کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے۔ سولر آربٹر نہ صرف سورج کے قریب ترین فاصلے پر کام کرنے والا خلائی جہاز ہے بلکہ یہ سورج سے مسلسل براہِ راست ڈیٹا زمین تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
اس مشن کی کامیابی مستقبل کے ایسے مزید مشنز کی راہ ہموار کرے گی جن کا مقصد نہ صرف سورج بلکہ دیگر ستاروں، کہکشاؤں اور یہاں تک کہ بلیک ہولز کے اسرار کو بھی کھولنا ہے۔
یاد رہے کہ سولر آربٹر ایک مشترکہ یورپی و امریکی منصوبہ ہے جس کا مقصد انسانی مشاہدے کو سورج کی سطح سے قطبین تک توسیع دینا ہے۔ اس مشن پر کام کرنے والے ماہرین کو امید ہے کہ ان مشاہدات سے دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں اور خلا میں پیدا ہونے والے جغرافیائی خطرات سے بچاؤ کی بہتر تدابیر بھی حاصل ہوں گی۔
یہ تصاویر اس بات کا مظہر ہیں کہ انسان اب صرف زمین یا چاند تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ کائنات کے سب سے طاقتور ستارے سورج کی نبض کو بھی اپنی انگلیوں پر محسوس کرنے لگا ہے اور یہ سب ممکن ہوا ہے جدید ٹیکنالوجی، عالمی تعاون اور سائنسی تجسس کے امتزاج سے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سولر آربٹر کیا گیا سورج کے سورج کی کو بھی
پڑھیں:
چارلی کرک کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنے والا بیان سے مکر گیا، حقیقت بیان کردی
یوٹا کاؤنٹی شیرف آفس کے مطابق ایک شخص، جارج زن، نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ چارلی کرک کو اس نے گولی ماری تاکہ اصل حملہ آور فرار ہو سکے۔
جارج زن اب انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے (Obstruction of Justice) کے الزام کا سامنا کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی قدامت پسند کارکن چارلی کرک کو 10 ستمبر کو یوٹا ویلی یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کے دوران گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ اصل مشتبہ قاتل ٹائلر رابنسن کو گزشتہ جمعے گرفتار کر لیا گیا، جب اس کے والد نے نگرانی کی فوٹیج میں اپنے بیٹے کو پہچان کر اسے حکام کے حوالے کرنے پر آمادہ کیا۔
شیرف آفس کے بیان میں کہا گیا کہ فائرنگ کے فوراً بعد زن چلانے لگا کہ ’میں نے کرک کو گولی ماری ہے‘۔ پولیس نے اسے حراست میں لیا لیکن بعد میں طبی مسئلے کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے اعتراف کیا کہ اس نے جان بوجھ کر غلط دعویٰ کیا تھا تاکہ تفتیش متاثر ہو۔
بیان میں مزید کہا گیا ’فی الحال کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جارج زن کا اصل شوٹر کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔‘
اس دوران رابنسن پر سخت گیر قتل (Aggravated Murder) کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یوٹا کے گورنر اسپنسر کاکس نے کہا ہے کہ ریاست اس کے خلاف سزائے موت کا مطالبہ کرے گی۔
یوٹا کاؤنٹی اٹارنی جیف گرے کے مطابق ملزم کی والدہ نے بتایا کہ رابنسن گزشتہ برس سے زیادہ سیاسی طور پر سرگرم ہوا اور اس کے نظریات ’ترقی پسندی‘ کی طرف چلے گئے، خصوصاً ہم جنس پرسوں کے حقوق کی حمایت میں۔
گرے نے مزید کہا کہ رابنسن اپنے روم میٹ کے ساتھ رومانوی تعلق میں ہے جو جنس کی تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔
31 سالہ چارلی کرک نے قدامت پسند تنظیم ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے کی بنیاد رکھی تھی اور وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرجوش حامی تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں