پی ٹی آئی، متحدہ گٹھ جوڑ بے نقاب، غنڈہ گردی کی سیاست ناکام ہو چکی، شرجیل میمن WhatsAppFacebookTwitter 0 13 June, 2025 سب نیوز

کراچی (آئی پی ایس )سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اور وزیر برائے توانائی و منصوبہ بندی سید ناصر حسین شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے درمیان ابھرتے ہوئے اتحاد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اسمبلی میں ہونے والے احتجاج کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔شرجیل میمن نے کہا کہ آج پی ٹی آئی اور متحدہ کا گٹھ جوڑ واضح طور پر سامنے آ چکا ہے۔ جو کل تک سیٹوں پر لڑ رہے تھے، آج اسمبلی میں ایک ساتھ کھڑے نظر آئے۔ یہ اتحاد ایک نیا پیغام ہے، لیکن عوام سب کچھ سمجھ چکے ہیں۔

سینئر وزیر شرجیل میمن نے کہا کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات سے مسلسل راہِ فرار اختیار کرتی رہی ہے کیونکہ عوامی سطح پر انہیں کوئی پذیرائی حاصل نہیں۔ سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا، اور ہم نے کراچی سے بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور کھالوں کی سیاست کا خاتمہ کیا۔انہوں نے دعوی کیا کہ متحدہ نے ایران پر حملے کے بہانے ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی لیکن وزیر اعلی نے اپنی تقریر کا آغاز ہی اس حملے کی مذمت سے کیا۔ یہ سب کچھ ایک ڈرامہ تھا جو بے نقاب ہو چکا ہے۔شرجیل میمن نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ مثبت سیاست کی حامی رہی ہے لیکن جو لوگ غنڈہ گردی کی سیاست کرتے ہیں، ان کے لیے پیغام ہے کہ ہم نہ پہلے ان سے ڈرے، نہ آئندہ دبا میں آئیں گے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ایم کیو ایم کو واقعی کراچی کے عوام کی فکر ہوتی تو وفاقی بجٹ میں کے فور اور حیدرآباد-سکھر موٹر وے جیسے منصوبوں پر احتجاج کرتی، لیکن وہاں یہ لوگ کٹھ پتلی بنے بیٹھے رہے۔انہوں نے بتایا کہ جام صادق پل آئندہ ماہ کے آغاز میں عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔ ہم نے کراچی کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اور اسے کسی دوسرے شہر سے کمتر نہیں سمجھا۔سندھ کے وزیر برائے توانائی و منصوبہ بندی سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ آج کا احتجاج صرف اور صرف وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ وزیر اعلی نے جس طرح بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا، وہ اپوزیشن کی سیاست کے خاتمے کا باعث بن چکا ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے بجٹ کو انتہائی شاندار قرار دیتے ہوئے کہا کہ کل اس پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی ارکان کو سب سے کم اعزازیہ دیا جاتا ہے، جسے دیگر صوبوں کے برابر لایا جائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کے ایران پر حملے جاری، تہران میں ایٹمی سائٹ کے قریب دھماکے اسرائیل کے ایران پر حملے جاری، تہران میں ایٹمی سائٹ کے قریب دھماکے قومی اسمبلی: وفاقی بجٹ پر گرما گرم بحث، اپوزیشن نے مسترد کر دیا اسرائیلی کمانڈوز نے ایرانی سرزمین سے بھی حملوں میں حصہ لیا، فوٹیج جاری اسرائیل ایران کی میزائل تیار کرنیکی صلاحیت کو تباہ کرنے جارہا ہے، ایران کا جواب سخت ہوسکتا ہے، نیتن یاہو اسرائیلی وزیراعظم ایرانی ردعمل سے خوف زدہ، یونان فرار ہو گئے خیبرپختونخوا کا 2 ہزار 119 ارب روپے کا بجٹ پیش، پنشن، تنخواہیں بڑھا دی گئیں TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: شرجیل میمن نے کہا کہ پی ٹی آئی انہوں نے کی سیاست کے لیے

پڑھیں:

سیاست میں اب اخلاقیات ناممکن

کے پی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ اپوزیشن میں اخلاقی جرأت ہو تو مخصوص نشستیں لینے سے انکار کر دے کیونکہ اخلاقی جرأت 26 ویں آئینی ترمیم سے آزاد ہے اور مخصوص نشستیں صرف پی ٹی آئی کا حق ہے، قانون اور عدالت تو 26 ویں آئینی ترمیم میں جکڑی ہوئی ہے، اس لیے اپوزیشن کو اخلاقی طور پر مخصوص نشستیں نہیں لینی چاہئیں۔ بیرسٹر سیف کے اس بیان میں انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ مخصوص نشستوں کا سپریم کورٹ کا فیصلہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد تو قانونی ہے مگر اپوزیشن کو اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے نشستیں لینے سے انکار کر دینا چاہیے۔

بیرسٹر سیف کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اگر ان کے کہنے پر اپوزیشن مخصوص نشستیں لینے سے انکار بھی کر دے تو کیا ہوا کیونکہ عدالت فیصلہ دے چکی، اگر اپوزیشن اخلاقی طور مخصوص نشستیں نہ لے تو پھر یہ نشستیں کس کو دی جائیں کیونکہ پی ٹی آئی کا تو قانونی طور پر پارلیمنٹ میں وجود ہے نہیں اور سنی اتحاد کونسل جس میں اب پی ٹی آئی کے ارکان شامل ہو چکے اس سنی اتحاد نے بھی اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا ہی نہیں تھا وہ بھی پی ٹی آئی کی طرح قانونی طور مخصوص نشستوں کا حق دار نہیں اور پی ٹی آئی نے عدالت سے یہ مخصوص نشستیں مانگی بھی نہیں تھیں تو ایسی صورت حال میں مخصوص نشستیں کیا خالی رکھی جائیں۔

اس طرح پارلیمنٹ اور اسمبلیاں نامکمل اور ان کے فیصلے غیر قانونی قرار پائیں گے جو ضرور عدلیہ میں چیلنج بھی ہوں گے۔ بیرسٹر سیف جن جماعتوں کو اخلاق کا درس دے رہے ہیں ان میں تین جماعتیں وفاق میں برسر اقتدار ہیں اور تین صوبوں میں، ان کی حکومت بھی ہے صرف کے پی میں یہ جماعتیں اپوزیشن میں ہیں اور کے پی میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) مخصوص نشستیں لینے سے انکار کرتی اس نے تو پشاور ہائی کورٹ سے کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم اس لیے کرا دیا ہے کہ اسے کم نشستیں دی گئی ہیں۔

 (ن) لیگ کے اعتراض کے مطابق کے پی اسمبلی میں جے یو آئی اور (ن) لیگ کی سات سات نشستیں ہیں مگر جے یو آئی کو دس اور (ن) لیگ کو صرف 8 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔ اپوزیشن مخصوص نشستیں اخلاقی طور انکار تو کیا کرتی (ن) لیگ نے تو الیکشن کمیشن کی تقسیم ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے جس کے بعد جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) بھی باہم لڑیں گی کہ انھیں مفت میں جو نشستیں مل رہی ہیں وہ اس سے بھی مطمئن نہیں اور زیادہ نشستیں مانگی جا رہی ہیں۔

بیرسٹر سیف کے پی کی اپوزیشن سے جس اخلاقیات کی توقع کر رہے ہیں انھیں پہلے اپنے اخلاق کا بھی جائزہ لینا چاہیے تھا کیونکہ وہ پہلے خود اس اخلاق پر پورے نہیں اترے۔ وہ (ق) لیگ میں رہے، ایم کیو ایم نے انھیں اپنا سینیٹر منتخب کرا کر سیاست میں متعارف کرایا تھا، وہ جنرل پرویز مشرف کابینہ میں شامل رہے اور دو پارٹیوں میں شامل رہنے کے بعد وہ پی ٹی آئی میں آئے تھے اور اب کے پی حکومت کے مشیر اطلاعات ہیں۔

انھوں نے اخلاق کی توقع بھی صرف کے پی کی اپوزیشن سے رکھی ہے باقی قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی کوئی بات نہیں کی۔آج کی سیاست میں اخلاقیات نہیں بلکہ صرف سیاسی اور مالی مفادات اولین ترجیح بن چکے ہیں۔ اس مفاداتی سیاست نے گجرات کے چوہدریوں کو توڑ دیا جو اس سے قبل متحد تھے۔ اس سیاست میں یہ بھی ہوا کہ پی ٹی آئی کی محبت میں بوڑھا باپ جیل بھگتتا رہا اور جوان بیٹا بیرون ملک بیٹھا رہا جس کو باپ کے لیے خود ملک آ جانا چاہیے تھا۔ سیاست میں اخلاق کا تقاضا تھا کہ اپنے قریبی ساتھی شیخ رشید کے خلاف پی ٹی آئی اور چوہدری نثار کے خلاف مسلم لیگ (ن) اپنے امیدوار کھڑے نہ کرتیں۔1992 کے کرکٹ کے قومی ہیرو جب تک سیاست میں نہیں آئے تھے ان کے میاں نواز شریف سے بہت اچھے تعلقات تھے، انھوں نے اپنے کینسر اسپتال کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف سے اسپتال اور اپنے گھر کا پلاٹ لیا تھا۔

دونوں اچھے دوست تھے مگر 1996 میں بانی پی ٹی آئی سیاست میں آ کر نواز شریف کے سیاسی مخالف بن گئے تھے مگر نواز شریف میں یہ اخلاق تھا کہ وہ بانی کی عیادت کے لیے ان کے اسپتال گئے تھے اور وزیر اعظم بن کر وہ بنی گالا بھی گئے تھے جہاں بانی نے سڑک منظور کرائی تھی مگر جب بانی بالاتروں کی مدد سے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے نواز شریف اور ان کی پوری فیملی کو جیل میں ڈلوایا اور نواز شریف کو موت کے قریب کلثوم نواز سے فون پر بات تک نہیں کرائی تھی اور کلثوم نواز کے انتقال کے بعد رائیونڈ جا کر یا فون پر تعزیت تک نہیں کی تھی۔

آج کی سیاست صرف مفادات کی سیاست ہے جس کا اخلاقی اقدار سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ پی ٹی آئی نے تو سیاست سے اخلاقیات کا مکمل خاتمہ کرا دیا ہے صرف ہاں میں ہاں ملانے والے بہت اچھے اور تنقید، مخالفت یا اچھی تجاویز دینے والے بھی ہر پارٹی میں قابل نفرت قرار پاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں بجلی کے بحران کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا،شرجیل انعام میمن
  • ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو مضبوط بنا کر پابندیوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، ایرانی صدر
  • سیاست میں اب اخلاقیات ناممکن
  • چند لوگوں کے بل نہ دینے پر سب کی بجلی بند کرنا ناقابل قبول ہے، شرجیل میمن
  • ایران میں دو افراد کودہشت گردی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی
  • یلو لائن بی آر ٹی کراچی کا ایک اسٹریٹیجک اور وژنری منصوبہ ہے، شرجیل میمن
  • ایران سےمتعلق خاموشی سے تعمیری کردار ادا کرنے پر امریکہ نے پاکستان کی تعریف کردی
  • یلو لائن، بی آر ٹی کراچی کا ایک اسٹریٹیجک اور وژنری منصوبہ ہے، شرجیل میمن
  • سندھ میں 21 لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل میمن
  • سندھ میں 21 لاکھ مفت گھر بنانے کا منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل میمن