حکومت سندھ نئے مالی سال میں 360 ارب قرض لے گی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
نئے مالی سال کے دوران لیے جانے والے قرض کے بعد حکومت سندھ پر بیرونی قرضوں کا بوجھ جون 2026ء کے اختتام تک 1302 ارب 44 کروڑ 80 لاکھ روپے تک پہنچ جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ حکومت کا رواں ماہ کے آخر تک بیرونی قرضوں کا حجم 1302 ارب سے تجاوز کر جائے گا اور نئے مالی سال کے دوران 360 ارب قرض لیا جائے گا۔ حکومت سندھ کے مطابق آئندہ مالی سال 26-2025ء کے دوران 360 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے لے گی۔ نئے مالی سال کے دوران لیے جانے والے قرض کے بعد حکومت سندھ پر بیرونی قرضوں کا بوجھ جون 2026ء کے اختتام تک 1302 ارب 44 کروڑ 80 لاکھ روپے تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح حکومت سندھ نئے مالی سال کے دوران 43 ارب 97 کروڑ روپے کے بیرونی قرضے ادا کرے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نئے مالی سال کے دوران حکومت سندھ جائے گا
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا 344 ارب روپے کی گرانٹس پر اظہارِ تشویش، حکومت سے وضاحت طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر اربوں روپے کی اضافی مالی گرانٹس جاری کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور اس اقدام کو معاہدے کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق موجودہ مالی سال کے دوران وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر 344 ارب 64 کروڑ روپے اضافی خرچ کیے، جن میں مختلف شعبوں کو گرانٹس کی مد میں بھاری رقوم جاری کی گئیں، لیکن یہ اخراجات آئینی تقاضوں کے برخلاف پارلیمانی منظوری کے بغیر کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق بجلی کے شعبے میں نجی پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو 115 ارب روپے کی خطیر گرانٹ جاری کی گئی، جبکہ قومی دفاع کے لیے 59 ارب روپے کی اضافی رقم بطور سپلیمنٹری گرانٹ مختص کی گئی۔
مزید برآں، سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے 30 ارب روپے، زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کے لیے 14 ارب روپے اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مدد کے لیے پاک فوج کو 23 ارب روپے کی اضافی گرانٹ جاری کی گئی۔
اس کے علاوہ ریکوڈک منصوبے کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 3.7 ارب روپے، اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے لیے 52 کروڑ روپے جبکہ ارکانِ پارلیمنٹ کی اسکیموں کے لیے 7 ارب روپے کی رقم جاری کی گئی۔ اسی طرح ایف بی آر کو مختلف مدات میں 6 ارب روپے فراہم کیے گئے، جن میں اعلیٰ عدلیہ، وزارت داخلہ اور دیگر سرکاری محکموں کے اخراجات شامل ہیں۔
آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ اس قسم کی مالی بے قاعدگیاں مستقبل میں قرض پروگرام کے تسلسل پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور اس بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔