سعودی عرب کا ایرانی حجاج کرام کو واپسی تک قیام اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 جون ۔2025 )سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد محمد بن سلمان کی سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے وزار ت حج و عمرہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ مملکت میں پھنسے ہوئے ایرانی حجاج کرام کو ان کی وطن واپسی تک تمام ضروری امداد فراہم کریں.
(جاری ہے)
سعودی جریدے کے مطابق ایرانی زائرین کو یہ سہولیات اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ان کی محفوظ واپسی کے لیے حالات مکمل طور پر بہتر نہ ہو جائیں تاکہ وہ اپنے وطن اور خاندانوں کے پاس واپس جا سکیں دوسری جانب ایران کے پریس ٹی وی نے گذشتہ روز تہران پر اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں جنرل سٹاف میں انٹیلی جنس امور کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل غلام رضا محرابی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
نیو یارک، فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں فلسطین پر کانفرنس آج منعقد ہوگی
امریکا (جس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اپنائی تھی) نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، اسرائیل بھی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں پیدا ہونیوالے انسانی بحران کے تناظر میں اقوام متحدہ کی فلسطین پر کانفرنس آج نیویارک میں منعقد ہوگی۔ 3 روزہ کانفرنس فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں منعقد کی جا رہی ہے اور اس میں 123 ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ کانفرنس کا مقصد دو ریاستی حل کے لیے ایک واضح اور عملی لائحہ عمل مرتب کرنا ہے، جو کہ 8 ورکنگ گروپوں کی مشاورت سے تیار کی گئی تجاویز پر مبنی ہے۔
یہ کانفرنس اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، کیونکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے رواں ہفتے اعلان کیا ہے کہ فرانس فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا، یوں وہ ایسا کرنے والا پہلا جی سیون ملک ہوگا۔ میکرون نے کہا ہے کہ باضابطہ اعلان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر میں رسمی طور پر کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی واشنگٹن نے شدید مذمت کی تھی، کہ یہ اقدام غیر ذمہ دارانہ فیصلہ ہے، جو صرف حماس کے پروپیگنڈے کو تقویت دے گا اور امن کے عمل کو پیچھے دھکیل دے گا۔
امریکا (جس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اپنائی تھی) نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، اسرائیل بھی اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ ایک سفارتی مراسلہ، جو پیرس اور واشنگٹن میں ’رائٹرز‘ نے دیکھا ہے، اس کے مطابق امریکا نے دیگر حکومتوں کو اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، یہ کہہ کر کہ اس سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تاہم، امریکی مخالفت کے باوجود کئی یورپی ممالک نے فرانس کے نقشِ قدم پر چلنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے، مئی میں یورپی یونین کے رکن ممالک ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت 193 اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے کم از کم 142 فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں یا ایسا کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، تاہم امریکا، برطانیہ اور جرمنی جیسے کئی بااثر مغربی ممالک نے اب تک ایسا نہیں کیا۔
انٹرویو میں ڈار نے ایک بار پھر سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ تنازعات کا حل طاقت یا جنگوں میں نہیں، بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری میں ہے اور ہم اسی راستے کے قائل ہیں۔ فرانس کا کہنا ہے کہ نیویارک کانفرنس کا مقصد صرف بیانات سے آگے بڑھ کر ایسے ٹھوس اقدامات تجویز کرنا ہے، جو امن عمل کو بحال کر سکیں۔ منتظمین کو امید ہے کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد دے گی۔