ایران نے مزید دو فوجی کمانڈرز کی شہادت کی تصدیق کردی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ایران نے مزید دو فوجی کمانڈرز کی شہادت کی تصدیق کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 14 June, 2025 سب نیوز
تہران:ایران نے اسرائیل کے حملے میں مزید دو فوجی کمانڈرز کی شہادت کی تصدیق کردی۔
ایرانی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسرائیل کے حملوں میں ملٹری آپریشنز کے ڈپٹی چیف جنرل مہدی ربانی شہید ہوئے،اس کے علاوہ جنرل اسٹاف کے ہیڈ آف انٹیلیجنس جنرل غلام رضا محرابی بھی شہید ہوگئے۔
یاد رہےکہ اسرائیل کے ایران پر حملے کے نتیجےمیں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجرجنرل حسین سلامی اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوگئے۔
اسرائیل نےحملےمیں ایران کے جوہری اور عسکری مراکز کو نشانہ بنانےکا دعویٰ کیا ہےجبکہ ایرانی میڈیا کے مطابق حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 5 شہری شہید اور 50 زخمی ہوئے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کو بھاگنے نہیں دیں گے، اختتام ہم لکھیں گے، ایرانی سپریم لیڈر اسرائیل کو بھاگنے نہیں دیں گے، اختتام ہم لکھیں گے، ایرانی سپریم لیڈر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کو ہراساں کرنے سے روک دیا گریڈ 20 اور 21 کے افسران سے گاڑیاں واپس لینے کا حکم اسرائیل نے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی، نتائج بھگتنا ہوں گے: چین، روس ایرانی میزائل حملوں میں اسرائیلی فوجی ہیڈکوارٹر ملیامیٹ وزیراعظم کے معاون خصوصی مبارک زیب کے گھر پر راکٹ حملہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی
اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ تحریر: یحیی دبوق (کالم نگار لبنانی اخبار الاخبار)
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے تناو کی شدت میں حالیہ اضافہ غزہ میں جنگ بندی متزلزل ہونے کی علامت ہے لیکن متضاد طور پر غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے پر مبنی واقعے سے غلط فائدہ اٹھا کر تناو کی شدت میں ایسے کنٹرول شدہ اضافے کی کوشش ہے جو امریکہ کی براہ راست نگرانی میں انجام پا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی محض ایک متزلزل جنگ بندی ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل مدمقابل فریقوں خاص طور پر حماس کی طاقت آزمانے کا ایک میدان ہے تاکہ اسے جنگ کے ان نئے قوانین سے مطابقت دی جا سکے جو امریکہ کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جنگ بندی کے "تسلسل" پر زور دیتے ہوئے پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کا جواب دے گا۔
امریکی نائب صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعے نہ صرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے بعد والا مرحلہ درحقیقت اسرائیل کی سیکورٹی کے حق میں نئے قوانین وضع کرنے کا ایک میدان ہے اور مقصد میدان جنگ میں طاقت کا توازن برقرار کرنا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی واضح طور پر زمینی حقائق میں دکھائی دے رہی ہے۔ آج اسرائیل نے غزہ کے ایسے علاقوں میں بھی اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جہاں سے اسے جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں فوجی انخلاء انجام دینا تھا۔ اس اقدام کو امریکہ کی اس سیاسی حمایت پر مبنی چھتری سے علیحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے جو اس نے اسرائیل کے لیے کھول رکھی ہے۔ یوں امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کو جنگ بندی کی "پابندی" کا من گھڑت معنی کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر فوجی سرگرمی کو "جائز دفاع" کا نام دے دیا جاتا ہے چاہے وہ غزہ کی پٹی میں اعلان شدہ حدود کی خلاف ورزی پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی حماس نے کی ہے۔ اس کا نتیجہ حماس اور فلسطینیوں پر ایک نابرابر صورتحال مسلط کر دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی ایک طرف حماس سے جنگ بندی معاہدے کی ہر شق کی پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کو امریکہ کی کھلی یا ڈھکے چھپے حمایت سے ان شقوں کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام سے بھی بچ جائے اور غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کی وسعت بھی بڑھاتی چلی جائے۔
اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
اسرائیل کے حساس اداروں سے عبرانی ذرائع ابلاغ تک لیک ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے مختلف قسم کے حربوں سے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل میں امریکی مداخلت پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تل ابیب سے دشمنی نہیں بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کے طور پر پیش کرے۔ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ اس کے تمام فیصلے "ایک ریاست کے طور پر اسرائیل" کے حق میں اور ان میں محض افراد کے مفادات کو مدنظر قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
امریکہ اسرائیل کو اپنی مکمل اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ آخرکار اسے "مشروط" طور پر سیکورٹی امور میں آزادی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم آنے والے دنوں میں بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حماس نہ صرف مشکل انتخاب سے روبرو ہو گی بلکہ عین ممکن ہے اسے بیرونی دباو کے نتیجے میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم ہونا پڑے۔ یوں رفح میں فائرنگ کا تبادلہ اور اس پر اسرائیل کا ردعمل ایک طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد جنگ کے نئے قوانین مسلط کرنا ہے۔ ایسے قوانین جن کا واضح اعلان نہیں کیا جاتا لیکن میدان جنگ میں لاگو کیے جاتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جس کا مستقبل واضح نہیں ہے اور وہ فوجی یا سیاسی راہ حل کے بغیر طول پکڑ سکتا ہے۔