کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جون2025ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف یا ایم کیو ایم کے کسی بھی دبائو یا سیاسی بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور عوامی مفادات کا دفاع اولین ترجیح رہے گی۔انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے سندھ کا ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے کا بنانے جا رہے ہیں، اگر وفاق نے پورے پیسے دیئے تو یہ اعدادوشمار زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، وفاق نے گزشتہ سال بھی مسلسل محاصل کی منتقلی کم کی ہے، صوبائی ترقیاتی بجٹ کا کل بجٹ ایک ہزار 18 ارب روپے ہے۔

26-2025کے بجٹ کا حجم 3 ہزار 450 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال ہم ریکارڈ 1460 اسکیمیں مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ ہفتہ کو چیف منسٹرہائوس میںکراچی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا انہوں نے کہا کہ 2 ہزار 150 ارب روپے کے موجودہ مالی اخراجات ہیں، جاری اخراجات میں سب سب سے بڑا حصہ تنخواہوں اور پنشنز کا ہے، آئندہ مالی سال تنخواہوں اور پنشن کے اخراجات ایک ہزار 100 ارب روپے ہوں گے، ہمارے تنخواہوں کے اخراجات ماہانہ 100 ارب روپے ہیں۔

(جاری ہے)

مراد علی شاہ نے کہا کہ مشکلات کے باوجود گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی تنخواہ 12 فیصد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، گریڈ 17 سے 22 کی تنخواہیں 10 فیصد بڑھیں گی، یہ سب غیرترقیاتی اخراجات ہیں، دوسرا سب سے بڑا بجٹ ہمارا تعلیم کا ہے، اس سال تعلیمی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ کیا ہے، اس کے بعد بڑا بجٹ صحت کے شعبے کو جاتا ہے، صحت کے بجٹ میں 11 فیصد ضافہ کیا گیا ہے۔

اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر اعلی نے صوبے کے لیے ایک پ رعزم مالی اور ترقیاتی ایجنڈے کا اعلان کیا، ساتھ ہی سنگین مالی چیلنجز اور وفاقی کٹوتیوں پر بھی روشنی ڈالی۔مراد علی شاہ نے کانفرنس کا آغاز ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کی شدید مذمت سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس حملے کے خلاف اپنا احتجاج بجٹ اجلاس میں ہی ریکارڈ کرا چکے تھے اور فوری طور پر ایک اجلاس بلا کر اس جارحیت کے خلاف قرارداد بھی منظور کرائی۔

وزیراعلی نے اپوزیشن کے جانب سے قرارداد کی منظوری کے دوران پیدا کی گئی ہنگامہ آرائی پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کیوں کی، ساتھ ہی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف سخت مو قف کو بھی دہرایا۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنا 17واں مسلسل صوبائی بجٹ پیش کیا ہے جو سیاسی تسلسل اور مو ثر حکمرانی کا ثبوت ہے۔

تاہم مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر مالی وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کی اور انکشاف کیا کہ بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک روز قبل سندھ حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ متوقع 105 ارب روپے روک لیے جائیں گے۔ سندھ کو گذشتہ سال سے اب تک قابل تقسیم محاصل سے 1,478.

5 ارب روپے موصول ہوئے ہیں جبکہ 422.3 ارب روپے تاحال واجب الادا ہیں۔ وزیراعلی نے امید ظاہر کی کہ یہ رقم جون کے اختتام تک جاری کر دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت مالی نظم و ضبط کی شرائط کے باوجود سندھ حکومت رواں سال ترقیاتی منصوبوں کے لیے 590 ارب روپے مختص کرے گی۔ مجموعی بجٹ کا حجم 3.45 کھرب روپے رکھا گیا ہے جس میں 1 کھرب روپے ترقیاتی اور 2.15 کھرب روپے جاری اخراجات کے لیے مختص ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تنخواہوں اور پنشنز کے لیے 1.1 کھرب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ نچلے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد اور اعلی گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 18 فیصد اور صحت کے لیے 11 فیصد اضافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ زراعت، آبپاشی اور بلدیاتی منصوبوں کے لیے بھی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے 236 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔

وزیراعلی نے خصوصا سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی فراہمی سمیت سندھ کی سماجی بہبود کی کامیابیوں کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 5 لاکھ گھر تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ مزید 8.5 لاکھ زیر تعمیر ہیں جو مجموعی طور پر 13 لاکھ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تیز رفتار عمل کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور یہ نیپال میں زلزلے کے بعد کیے گئے اقدامات سے کہیں بہتر ہے۔

دیہی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مراد علی شاہ نے 600 ارب روپے کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن منصوبے کا اعلان کیا جس سے 45 لاکھ دیہی افراد مستفید ہوں گے۔ یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے دور میں مکمل کیا جائے گا جس میں دیہاتی اپنی نگرانی میں مقامی این جی اوز کے تعاون سے انفرااسٹرکچر بنائیں گے تاکہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس منصوبے کو "انقلابی اقدام" قرار دیا۔وزیراعلی نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ کئی ٹیکس ختم یا کم کر دیے گئے ہیں۔ تفریحی ٹیکس کا خاتمہ کیا گیا ہے، ریسٹورنٹ ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے۔ تھرڈ پارٹی گاڑی انشورنس پر اسٹامپ ڈیوٹی 50 روپے کر دی گئی ہے جبکہ انشورنس ٹیکس 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ٹیکس سے مستثنی اشیاء کی فہرست شائع کی جائے گی۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت زمین کے ریکارڈ کو بلاک چین کے ذریعے ڈیجیٹل بنا رہی ہے تاکہ آسان رسائی ممکن ہو سکے۔ چھوٹے کسانوں کو مفت لیزر لیولر فراہم کیے جائیں گے جبکہ بڑے کسانوں کے لیے سبسڈی دی جائے گی۔ کلسٹر فارمنگ ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت میں اہم پیش رفت میں 34 ہزار نئی کاسٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں ہیڈماسٹرز کو انتظامی اخراجات کیلیے بجٹ میسر ہوگا۔ معذور افراد کی سہولیات میں اضافہ کیا گیا ہے، ذہنی بحالی کے مراکز اور ہر ضلع میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے تحت بچوں کی صحت کا ایک جامع نیٹ ورک قائم کر دیا گیا ہے۔

سندھ ہاری کارڈ پروگرام کے تحت کسانوں کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کے فور واٹر پروجیکٹ کی ساخت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کینجھر جھیل سے فراہم کرے، جبکہ سندھ حکومت اس پانی کی تقسیم کی ذمہ دار ہے اور اس مقصد کے لیے ضروری فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔

فیڈر لائن کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ایک مہنگے پانچ ملین گیلن یومیہ صلاحیت کے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مراد علی شاہ نے اعتراف کیا کہ اگرچہ وفاقی فنڈز کی کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط چیلنجز پیدا کر رہی ہیں، سندھ حکومت ترقی، سماجی فلاح اور مالی نظم و ضبط پر قائم ہے۔وزیراعلی نے بتایا کہ گریڈ 1 سے 4 تک کی 20 سے 25 ہزار نوکریاں خالی ہیں، جنہیں جلد پر کیا جائے گا۔

گریڈ 5 سے 7 کی بھرتیاں آئی بی اے کے تحت ٹیسٹ کے ذریعے ہوں گی جبکہ گریڈ 16 کی اعلی ملازمتوں کے لیے بھی تقرریوں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈبلیو ڈی اسکیمیں صوبوں کو منتقل ہوئیں تو سندھ کو صرف 18 منصوبے دیے گئے جو ناانصافی ہے۔ انہوں نے وفاقی بجٹ کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کی منصفانہ تقسیم اور تعلیمی اداروں کی فنڈنگ بحال نہ کی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی فنڈنگ میں 4 ارب سے کٹوتی کرکے 2 ارب روپے کر دیے گئے ہیں جس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔وزیراعلی نے سکھر-حیدرآباد موٹروے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے کے لیے وفاقی فنڈز 30 ارب روپے سے کم کرکے 15 ارب کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاق 25 ارب روپے برابر کا حصہ ڈالے تو سندھ بھی اتنی رقم دینے کو تیار ہے مگر وفاق نے یہ پیشکش رد کر دی۔

البتہ اسلامی ترقیاتی بینک تین حصوں کے لیے فنڈنگ پر آمادہ ہے جب کہ باقی حصوں کے لیے بین الاقوامی مالی معاونت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔مراد علی شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بڑے منصوبے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل ہی نہیں کیے گئے اور سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو ناانصافی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ کراچی میں 150 بسوں کی آمد میں تاخیر وسائل کی کمی کے باعث ہوئی تاہم انفراسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ زمینوں کے ریکارڈ کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز نہیں کیا جا سکا تاہم بلاک چین پراجیکٹ کو ماتلی اور سکھر میں تجرباتی بنیادوں پر شروع کر دیا گیا ہے۔

سیف سٹی منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل ستمبر یا اکتوبر 2026 تک متوقع ہے جو کراچی کے اہم علاقوں پر مشتمل ہوگا۔ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں اور کیمرے سیکیورٹی خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے لیے 2026 کے بجٹ میں فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔وزیراعلی نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بڑھے ہیں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے وفاق کے مقابلے میں سندھ حکومت پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ اگست 2022 کے سیلاب کے بعد ورلڈ بینک نے ہنگامی فنڈز فوری طور پر جاری کیے جو سندھ حکومت پر اعتماد کا ثبوت ہے۔مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی باقاعدہ اتحادی نہیں تاہم سندھ نے تاریخی فنڈز کی کمی پر مو ثر مو قف پیش کیا جس کے نتیجے میں 86 ارب روپے سندھ کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے دیے گئے۔

وزیراعلی نے چیف منسٹر آفس کے لیے ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کی خریداری پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہیلی کاپٹر 36 سال پرانا ہے جبکہ گاڑیاں کئی برسوں سے اپ ڈیٹ نہیں کی گئیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں غیر ضروری اخراجات روکنے کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت زرعی شعبے میں کارپوریٹ فارمنگ کی جانب جا رہی ہے مگر مقامی کسان نیٹ ورکس کو شامل کر کے شفاف شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

مراد علی شاہ نے بے قابو آبادی کو سندھ کا اہم مسئلہ قرار دیا اور بتایا کہ صحت اور پاپولیشن ویلفیئر محکموں کو ضم کر دیا گیا ہے تاکہ بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اب تک بڑے ڈیمز کیلیے کوئی فنڈز نہیں رکھے، جب رکھا گیا تو دیکھا جائیگا۔ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کی جانب سے متنازعہ ڈیم منصوبوں کی مخالفت کو سراہا۔

وزیراعلی نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت نے 25 ارب روپے کے سولر منصوبے رکھے ہیں اور شجرکاری مہم بھی شروع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے عمر کی بالائی حد 35 سال سپریم کورٹ نے مقرر کی ہے اور کوئی صوبہ اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سندھ نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 25 ارب روپے سولر منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں۔

تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ صوبے میں غربت بڑھ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومتی اخراجات پر لگنے والی پابندیاں ہیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ بجٹ میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے، اور اپوزیشن کو بریفنگ دی گئی، اگرچہ کچھ تجاویز کو شامل نہ کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔وزیراعلی سندھ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد پر پیدا ہونے والے تنازع پر کھل کر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس حساس مسئلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جبکہ ان کا رویہ حقیقی کارروائی کے بجائے محض شور شرابے پر مبنی تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپوزیشن نے مظاہروں میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اسرائیلی جارحیت جیسے انسانی مسئلے کو بھی سیاسی ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ سندھ حکومت اپوزیشن سے رابطہ رکھنے اور ان کے تحفظات سننے کی خواہشمند ہے تاہم افسوس ظاہر کیا کہ اکثر بات چیت ذاتی شکایات کی نذر ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ سازی کے عمل میں اپوزیشن سے باضابطہ مشاورت کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں حالانکہ سندھ حکومت نے ان سے بات چیت کی کوشش ضرور کی۔ پریس کانفرنس کا اختتام کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی تحریک انصاف یا ایم کیو ایم کے کسی بھی دباو یا بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لائے گی، اور عوامی مفادات کا دفاع اولین ترجیح رہے گی۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان پیپلز پارٹی ہے مراد علی شاہ نے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ منصوبوں کے لیے آئندہ مالی سال کر دیے گئے ہیں نے واضح کیا کہ وزیراعلی سندھ اعتراف کیا کہ کہ سندھ حکومت کر دیا گیا ہے پریس کانفرنس وفاقی حکومت وزیراعلی نے آئی ایم ایف کیا گیا ہے اعلان کیا کرتے ہوئے اضافہ کیا کھرب روپے جا رہی ہے ہیں جبکہ ارب روپے حکومت پر کیے گئے کے خلاف رہے ہیں کی گئی کے بجٹ کہ بجٹ ہیں جب کے تحت گئی ہے کیا ہے کیا جا ہے اور

پڑھیں:

پُرتشدد نہیں ہوں گے، پی ٹی آئی قیادت کا علی امین گنڈاپور سے اختلاف

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز پشاور سے کر دیا ہے۔ احتجاج کا آغاز رنگ روڈ سے ہوا، جہاں کارکنان، منتخب نمائندے اور پارٹی قائدین نے شرکت کی اور موٹروے تک ریلی نکالی۔

پشاور سے عمران خان کی رہائی کے لیے تحریک کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد کے گھیراؤ اور اسلحہ لے کر گولی کا جواب گولی سے دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔

پارٹی قیادت کے مطابق عید کے بعد عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جو اب عملی طور پر شروع ہو گیا ہے۔ جسے اب مرحلہ وار خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے پورے ملک تک پھیلایا جائے گا۔ پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ تمام احتجاج عمران خان کی ہدایات کے مطابق پُرامن طریقے سے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے علی امین گنڈاپور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی خبریں، جنید اکبر کا بڑا دعویٰ سامنے آگیا

احتجاجی ریلی میں صوبائی  صدر جنید اکبر خان، پشاور ایجن جنرل سیکریٹری شیر علی ارباب، ملاکنڈ ریجن صدر صبغت اللہ، کواڈنیٹر احمد خان نیازی، ایم این اے عامر ایوب، تیمور جھگڑا،  خورشید خان اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔

‘عمران خان کی ہدایت پر عمل کریں گے، گولی علی امین گنڈاپور خود چلائے’

پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر قائدین علی امین گنڈاپور کی جانب سے پرتشدد احتجاج کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک سینئیر رہنما نے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے جذباتی بیان شاید ان کا ذاتی ہے، پارٹی کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

انھوں نے نام نہ ظاہر کرکے بتایا کہ علی امین گنڈا پور اس وقت صوبائی صدر نہیں ہیں اور احتجاج کے حوالے سے فیصلہ پارٹی کے قائدین ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت ابھی تک 9 مئی سے نہیں نکلی ہے، دوبارہ ایسے حالات کی طرف دھکیلنے سے پارٹی کا ہی نقصان ہو گا۔

‘نو مئی کیسز میں ورکرز ابھی تک جیلوں میں ہیں۔ کئی کو سزا ہوئی ہے۔ عدالتوں کا چکر لگا رہے ہیں۔ مزید ایسے حالات برداشت نہیں کر سکتے۔’

یہ بھی پڑھیے برطرف وزیر کے حق میں بیان کیوں دیا؟ علی امین گنڈاپور نے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر کو اہم عہدے سے ہٹا دیا

انھوں نے بتایا کہ ورکرز اور قائدین علی امین گنڈا پور سے ناراض ہیں۔ وہ بتائیں کہ 9 مئی کیسز کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟

انھوں نے کہا کہ مخالفین چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی احتجاج پر تشدد ہو اور پارٹی کی بدنامی ہو۔  تاہم وہ ریاست سے تصادم نہیں چاہتے بلکہ قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا چاہتے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔

پارٹی رہنما نے بتایا کہ ورکرز پرجوش ہیں اور ایسے بیانات سے وہ مزید اشتعال میں آئیں گے۔ ایک اور سینئیر رہنما نے کہا پی ٹی آئی میں عمران خان کا حکم حتمی ہوتا ہے۔ اور احتجاجی تحریک کے حوالے سے بھی وہ عمران خان کی ہدایت پر ہی عمل کریں گے۔

پارٹی میں اختلافات

عمران خان کی رہائی کے احتجاجی تحریک کے حوالے سے پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، علی امین گنڈا پور اور صوبائی صدر جنید اکبر کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ علی امین نہ صرف جنید اکبر کی قیادت سے ناخوش ہیں بلکہ وہ خیبر پختونخوا کے اندر سخت احتجاج اور سپلائی بند کرنے کے بھی مخالف ہیں۔

دوسری جانب جنید اکبر چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا سے سخت احتجاج شروع ہو، نیشنل گرڈ کو بجلی کی سپلائی بند کی جائے، ہائی ویز اور موٹرویز کو بند کیا جائے تاکہ وفاق پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق علی امین پارٹی معاملات میں جنید اکبر کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ احتجاج کے معاملے پر پارٹی تقسیم ہے۔

کارکنان کا احتجاجی حکمت عملی پر عدم اعتماد

پارٹی کارکنان کا قیادت پر اعتماد کا فقدان ہے۔ کارکنان کے مطابق وہ ہمیشہ عمران خان کی ہدایت پر ہی عمل کرتے ہیں اور ان کی ہدایت حتمی ہے۔ ان کے مطابق 9 مئی کے واقعات کے بعد پارٹی قیادت کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے، جس سے کارکنان میں شدید مایوسی پیدا ہوئی ہے۔

اسلام آباد ڈی چوک مارچ کے دوران علی امین گنڈاپور کی غیر حاضری اور بشریٰ بی بی کے ہمراہ کارکنان کو چھوڑ کر چلے جانے پر بھی کارکنان میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیادت کی عدم موجودگی اور غیر سنجیدگی سے کارکنوں کا مورال پست ہو گیا ہے۔

ملک گیر احتجاج کی حکمت عملی

پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق احتجاج کو خیبر پختونخوا تک محدود رکھنے کے بجائے تمام صوبوں تک پھیلایا جائے گا۔ ہر صوبے کے پارٹی قائدین کو خصوصی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ پُرامن طور پر سڑکوں پر نکلیں اور مرکزی شاہراہوں اور موٹرویز کو بند کریں تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ فی الحال حتمی منصوبہ خفیہ رکھا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کا اعلان عمران خان خود کریں گے۔ عمران خان کی رہائی کے مطالبے پر مبنی اس تحریک کی اگلی سمت کا تعین احتجاج کے دوران ہی ان کی ہدایات پر کیا جائے گا۔ قائدین کے مطابق اگر اس وقت عمران خان گولی چلانے اور پرتشدد ہونے کی ہدایت کرتے ہیں تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف جنید اکبر خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور عمران خان

متعلقہ مضامین

  • شاہراہِ بھٹو عوام کیلیے پیپلز پارٹی حکومت کا تحفہ ہے، مراد علی شاہ
  • وفاق نے تمام ترقیاتی منصوبے سندھ کو واپس نہ کیے تو پیپلزپارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی، مراد علی شاہ
  • وفاق نے تحفظات دور نہ کیے تو پی پی وفاقی بجٹ کی منظوری کیلئے ووٹ نہیں دے گی، وزیراعلی سندھ
  • سندھ کا بجٹ بھی عوام دشمن ہے ،مسترد کر تے ہیں‘محمد فاروق
  • بلاول بھٹو زرداری کیخلاف نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • پُرتشدد نہیں ہوں گے، پی ٹی آئی قیادت کا علی امین گنڈاپور سے اختلاف
  • پیپلز پارٹی کا وفاقی بجٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
  • یوٹیوبر رجب بٹ کا زیادتی و بلیک میلنگ کے مقدمے پر ردِعمل: صارفین کی سخت تنقید
  • حکومت کا وہ ٹیکس جسے پیپلز پارٹی نے ماننے سے انکار کر دیا