رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم نہ صرف نتن یاہو کے ذریعہ پورے ملک کو تباہ کئے جانے پر خاموش کھڑے ہیں، بلکہ ہم انکی حکومت کے ذریعہ ایران پر حملہ کئے جانے اور اسکی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکی قیادت کا قتل کئے جانے پر بھی خوشی منا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اقوام متحدہ کے مسودہ قرارداد پر ووٹنگ سے بھارتی حکومت کی دوری کو اخلاقاً بزدلانہ عمل قرار دیا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ جنگ بندی کے لئے ووٹ دینے سے ڈرنے والی مودی حکومت بھارت یا دنیا کو اخلاقی سمت یا قیادت دینے کے لائق نہیں ہے۔ ساتھ ہی کانگریس نے یہ سوال اٹھایا کہ گزشتہ 6 ماہ میں ایسی کیا تبدیلی آئی، جس کی وجہ سے بھارت نے جنگ بندی کی حمایت کرنا بند کر دیا فلسطین پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اصول پسندانہ رخ کو بھی چھوڑ دیا۔ اس معاملے میں کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک اور مایوس کن ہے کہ ہماری حکومت نے غزہ میں شہریوں کی حفاظت اور قانونی و اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے قرارداد پر غور نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ 60 ہزار افراد، جن میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں، پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک پوری آبادی کو یرغمال بنا کر بھوک سے مارا جا رہا ہے اور ہم کوئی قدم اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ درحقیقت ہم نہ صرف نتن یاہو کے ذریعہ پورے ملک کو تباہ کئے جانے پر خاموش کھڑے ہیں، بلکہ ہم ان کی حکومت کے ذریعہ ایران پر حملہ کئے جانے اور اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی قیادت کا قتل کئے جانے پر بھی خوشی منا رہے ہیں، سبھی بین الاقوامی پیمانوں کی پوری طرح خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

غزہ معاملہ پر مودی حکومت کے رخ پر حملہ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی کہتی ہیں کہ ہم ایک ملک کی شکل میں اپنے آئین کے اصولوں اور اپنی تحریک آزادی کے اقدار کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں، جس نے امن و انسانیت پر مبنی بین الاقوامی علاقہ کا راستہ ہموار کیا، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچی عالمی قیادت انصاف کی حفاظت کر کے ہمت کا مطالبہ کرتا ہے، بھارت نے ماضی میں یہ ہمت مستقل دکھائی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں، جو تیزی سے تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانیت کے لئے اپنی آواز از سر نو اٹھانی ہوگی اور سچائی و عدم تشدد کے لئے بے خوفی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پرینکا گاندھی کرتے ہوئے نے کہا کہ کے ذریعہ رہے ہیں کے لئے

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • دہلی کی زہریلی ہوا میں سانس لینا مشکل ہورہا ہے، پرینکا گاندھی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
  • سابق بھارتی کرکٹر اظہر الدین تلنگانہ کے پہلے مسلم وزیر بن گئے
  • پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پر طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے تصدیق کردی
  • غزہ، صورتحال میں بہتری کے لیے مزید تعاون درکار ہے: اقوام متحدہ