اقوام متحدہ میں غزہ معاملہ پر ووٹنگ سے بھارتی حکومت کی دوری شرمناک ہے، پرینکا گاندھی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم نہ صرف نتن یاہو کے ذریعہ پورے ملک کو تباہ کئے جانے پر خاموش کھڑے ہیں، بلکہ ہم انکی حکومت کے ذریعہ ایران پر حملہ کئے جانے اور اسکی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسکی قیادت کا قتل کئے جانے پر بھی خوشی منا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اقوام متحدہ کے مسودہ قرارداد پر ووٹنگ سے بھارتی حکومت کی دوری کو اخلاقاً بزدلانہ عمل قرار دیا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ جنگ بندی کے لئے ووٹ دینے سے ڈرنے والی مودی حکومت بھارت یا دنیا کو اخلاقی سمت یا قیادت دینے کے لائق نہیں ہے۔ ساتھ ہی کانگریس نے یہ سوال اٹھایا کہ گزشتہ 6 ماہ میں ایسی کیا تبدیلی آئی، جس کی وجہ سے بھارت نے جنگ بندی کی حمایت کرنا بند کر دیا فلسطین پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اصول پسندانہ رخ کو بھی چھوڑ دیا۔ اس معاملے میں کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک اور مایوس کن ہے کہ ہماری حکومت نے غزہ میں شہریوں کی حفاظت اور قانونی و اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے قرارداد پر غور نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ 60 ہزار افراد، جن میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں، پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایک پوری آبادی کو یرغمال بنا کر بھوک سے مارا جا رہا ہے اور ہم کوئی قدم اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ درحقیقت ہم نہ صرف نتن یاہو کے ذریعہ پورے ملک کو تباہ کئے جانے پر خاموش کھڑے ہیں، بلکہ ہم ان کی حکومت کے ذریعہ ایران پر حملہ کئے جانے اور اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی قیادت کا قتل کئے جانے پر بھی خوشی منا رہے ہیں، سبھی بین الاقوامی پیمانوں کی پوری طرح خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
غزہ معاملہ پر مودی حکومت کے رخ پر حملہ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی کہتی ہیں کہ ہم ایک ملک کی شکل میں اپنے آئین کے اصولوں اور اپنی تحریک آزادی کے اقدار کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں، جس نے امن و انسانیت پر مبنی بین الاقوامی علاقہ کا راستہ ہموار کیا، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچی عالمی قیادت انصاف کی حفاظت کر کے ہمت کا مطالبہ کرتا ہے، بھارت نے ماضی میں یہ ہمت مستقل دکھائی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں، جو تیزی سے تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانیت کے لئے اپنی آواز از سر نو اٹھانی ہوگی اور سچائی و عدم تشدد کے لئے بے خوفی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پرینکا گاندھی کرتے ہوئے نے کہا کہ کے ذریعہ رہے ہیں کے لئے
پڑھیں:
اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر تین روزہ اہم کانفرنس آج سے شروع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال ستمبر میں اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا۔ فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والی یہ کانفرنس جون میں اس وقت ملتوی کر دی گئی تھی جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ درجنوں ملکوں کے وزراء اس کانفرنس میں شریک ہوں گے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے پیش رفت کرنا ہے، تاہم امریکہ اور اسرائیل اس کانفرنس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب غزہ میں انسانی صورت حال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
اس کانفرنس سے چند روز قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا تھا کہ پیرس ستمبر میں باقاعدہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرے گا، جس کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کی نئی تحریک کو تقویت ملی ہے۔
کانفرنس کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈمیپ کے خد و خال وضع کرنا ہے، جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنانا اس کا ایک اہم جزو ہے۔
سعودی عرب نے کیا کہا؟کانفرنس سے قبل سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مملکت ہر اس کوشش کی مکمل حمایت کرتی ہے جو خطے اور دنیا میں منصفانہ امن کے قیام کے لیے کی جا رہی ہو۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اسی نظریے کے تحت سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر اس بین الاقوامی کانفرنس کی صدارت سنبھالی ہے تاکہ فلسطینی تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد مشرقی یروشلم (القدس) کو دارالحکومت بنانے والی 1967ء کی سرحدوں پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے سے منصفانہ اور جامع امن قائم کرنا ہے۔
فرانس کا بیانفرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے اتوار کو ایک فرانسیسی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اس کانفرنس کو اس مقصد کے لیے بھی استعمال کریں گے کہ دیگر ممالک کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے قائل کیا جا سکے۔
بارو نے کہا، ’’ہم نیویارک میں ایک اپیل کا آغاز کریں گے تاکہ دیگر ممالک بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ایک ایسی مزید پُرعزم اور مؤثر سفارتی تحریک کی ابتدا کریں جو 21 ستمبر کو اپنے عروج پر پہنچے۔
‘‘خیال رہے کہ صدر ایمانوئل ماکروں نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
بارو نے نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس وقت تک عرب ممالک بھی فلسطینی عسکری گروہ حماس کی مذمت کریں گے اور اس کے غیر مسلح کیے جانے کا مطالبہ کریں گے۔
امریکہ اور اسرائیل کانفرنس میں شریک نہیںامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ ترجمان کے مطابق یہ کانفرنس ’’حماس کے لیے ایک تحفہ ہے، جو تاحال ان جنگ بندی تجاویز کو مسترد کر رہا ہے جنہیں اسرائیل منظور کر چکا ہے اور جو یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امن کے قیام کا باعث بن سکتیں۔
‘‘ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن نے گزشتہ سال جنرل اسمبلی میں اس کانفرنس کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا اور’’ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو اس تنازعے کے طویل المدتی اور پرامن حل کے امکانات کو خطرے میں ڈالے۔‘‘
اسرائیل بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی مشن کے ترجمان جوناتھن ہارونوف نے کہا، ’’یہ کانفرنس سب سے پہلے فوری طور پر حماس کی مذمت اور باقی تمام یرغمالیوں کی واپسی جیسے اہم مسائل کو حل نہیں کرتی، اسی لیے اسرائیل اس میں شرکت نہیں کر رہا۔
‘‘ پاکستان کا ردعملکانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ’’میں نیو یارک میں منعقدہ اس اعلیٰ سطح بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور مستقل مؤقف کا اعادہ کروں گا۔‘‘
اسحاق ڈار نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا،’’ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کے قیام، 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے، غزہ کے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور فلسطینی عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات فراہم کرے گی۔
‘‘پاکستان کے نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’’یہ مسئلہ سنبھالنے میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ سعودی عرب اور فرانس کی کوشش قابل ستائش ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ فلسطین کا حل صرف دو ریاستی فارمولہ ہے۔‘‘
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس فوری جنگ بندی، خوراک، ادویات اور دیگر امداد کی روانی کی راہ ہموار کرے گی اور فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کروانے میں مددگار ہو گی۔
ادارت: صلاح الدین زین