برطانیہ کا مشرقِ وسطیٰ میں فوجی طیارے تعینات کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
اس سوال پر کہ آیا برطانیہ اسرائیل کو ایرانی میزائلوں اور ڈرون حملوں سے بچانے میں براہِ راست مدد دے گا، جس پر ایران نے برطانوی اڈوں کو ہدف بنانے کی دھمکی دی ہے۔ اسٹارمر نے تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ برطانیہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جنگی طیارے اور دیگر فوجی وسائل تعینات کر رہا ہے، تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر ’’ہنگامی معاونت‘‘ فراہم کی جا سکے۔ اسٹارمر نے G7 سربراہی اجلاس کے لیے روانگی کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے باوجود اسرائیل کے دفاع کو مسترد کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ برطانیہ کے مفاد میں درست فیصلے کروں گا۔ ہم خطے میں فوجی اثاثے منتقل کر رہے ہیں، جن میں طیارے بھی شامل ہیں، تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہا جا سکے۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ کے مطابق ان اقدامات میں اضافی فاسٹ جیٹ طیاروں اور ایندھن بھرنے والے طیاروں کی تعیناتی شامل ہے، تاکہ خطے میں جاری کشیدگی کی صورت میں فضائی معاونت فراہم کی جا سکے۔
یہ تیاری جمعہ کی صبح شروع کی گئی، جب اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور اعلیٰ عسکری قیادت کو نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔ اس سوال پر کہ آیا برطانیہ اسرائیل کو ایرانی میزائلوں اور ڈرون حملوں سے بچانے میں براہِ راست مدد دے گا، جس پر ایران نے برطانوی اڈوں کو ہدف بنانے کی دھمکی دی ہے۔ اسٹارمر نے تفصیل بتانے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عملیاتی فیصلے ہیں اور صورتحال مسلسل بدل رہی ہے، اس لیے میں ان کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم خطے میں فوجی وسائل کی منتقلی کر رہے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب عالمی برادری، خاص طور پر مغربی ممالک، اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں، جبکہ خطے میں ایک بڑے تنازعے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسٹارمر نے رہے ہیں
پڑھیں:
اسرائیل میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا فوجی بھرتی کے خلاف احتجاج، 15 سالہ نوجوان ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یروشلم: اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس مذہبی یہودی مردوں نے فوج میں جبری بھرتی کے خلاف تاریخی احتجاج کیا، جسے منتظمین نے ملین مارچ کا نام دیا، احتجاج اس وقت افسوسناک صورتحال اختیار کر گیا جب ایک 15 سالہ لڑکا عمارت کی بلندی سے گر کر ہلاک ہوگیا۔
غیر ملکی میڈیارپورٹس کے مطابق یہ ریلی اسرائیل کی تمام مذہبی جماعتوں کی غیر معمولی اتحاد کی علامت تھی، مظاہرین نے فوج میں بھرتی کے قانون اور بھرتی سے انکار کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شریک 20 سالہ یہودا ہرش جو مذہبی گروہ ناتورئی کارتا سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم کسی صورت اسرائیلی فوج میں شامل نہیں ہوں گے، جیسے ہم حماس کے لیے نہیں لڑتے، ویسے ہی اسرائیلی فوج کے لیے بھی نہیں لڑیں گے، ہم اور اسرائیلی ریاست دو متضاد نظریات رکھتے ہیں۔
مظاہرے سے قبل چباد نامی مذہبی گروہ کے رہنماؤں نے عوام سے اجتماعی دعا اور احتجاجی ریلی میں شرکت کی اپیل کی تھی، یروشلم جانے والی ٹرینوں میں رش کے باعث اسٹیشنوں پر ہجوم لگ گیا جب کہ پولیس نے شہر کی مرکزی شاہراہ ہائی وے نمبر 1 سمیت متعدد راستے بند کر دیے۔ ہزاروں مظاہرین نے پیدل شہر کا رخ کیا۔
مظاہرے میں شریک ایک 25 سالہ نوجوان نے کہا کہ میں فوج میں نہیں جاؤں گا، چاہے مجھے جیل میں ڈال دیا جائے، میں پہلے بھی گرفتار ہو چکا ہوں، پھر ہو جاؤں گا مگر ریاست ہمیں سیکولر بنانے پر مجبور نہیں کر سکتی، نوجوان کے گرفتاری کے وارنٹ پہلے ہی جاری ہوچکے ہیں۔
اسی طرح 19 سالہ یشِیوا (مذہبی مدرسے) کے طالبعلم مائیکل نے بتایا کہ اسے بھی بھرتی کا نوٹس موصول ہوا ہے مگر اس نے کہا کہ جب تک ہمارے ربّی ہمیں اجازت نہیں دیتے، ہم فوج میں رپورٹ نہیں کریں گے، حماس میں قیدیوں کا حشر ہم نے دیکھ لیا ہے، جنہیں ایک وقت کا کھانا ملا کرتا تھااور زندہ رہنے کے لیے پینے کا پانی اور ان کے پاس جو لاشیں ہیں وہ اب تک ہم حاصل نہیں کرسکیں ہیں۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ میں بدترین انسانی المیے کا باعث بننے والی جنگ میں مصروف ہے بکہ اندرونِ ملک مذہبی طبقہ ریاست کے سیکولر قوانین اور فوجی نظام کے خلاف کھل کر سراپا احتجاج ہے۔