Daily Ausaf:
2025-11-03@09:56:42 GMT

ایک عسکری سبق جو اسرائیل نہ بھول پائے گا

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

جب بھی دنیا میں ظلم کی رات طویل ہو جائے تو وہی ظلم اپنے انجام کو خود دعوت دینے لگتا ہے۔ اسرائیل نے جب ایران کے خلاف کھلے عام جارحیت کا آغاز کیا تو شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ جس آگ کو شعلہ دے رہا ہے وہ صرف تہران میں نہیں جلے گی بلکہ تل ابیب،حیفہ اور اشدود تک ہر اینٹ کو جھلسا دے گی۔ جمعہ کی صبح اسرائیلی فضائیہ نے ایران کی عسکری و جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے خطے میں ایک نئی اور خطرناک جنگ کا آغاز کیا۔ مگر تاریخ کا یہ سبق اسرائیل ہمیشہ نظرانداز کرتا آیا ہے کہ ظلم کے ہر وار کا ایک انتقام ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ انتقام بیک وقت صبر، حکمت اور آتش و آہن کی آمیزش بن کر برسنے لگتا ہے۔ایرانی سرزمین پر ہونے والے ان حملوں میں صرف عمارات نہیں گریں بلکہ ایران کی فوجی قیادت کے کئی ستون بھی شہید ہوئے۔ جنرل حسین سلامی، جنرل باقری اور جنرل غلام علی راشد جیسے جری سپہ سالاروں کا خون اسرائیلی میزائلوں سے بہا۔ چھ سائنسدانوں سمیت درجنوں ایرانی اہلکاروں کی شہادت نے ایرانی قوم کے دل کو زخمی ضرور کیا لیکن اس دل کے زخم نے جو چنگاری پیدا کی اس نے ایک ہی رات میں تل ابیب کے شیش محل کو خاکستر کر دیا۔ایران نے آپریشن وعدہ صادق سوم کے تحت اپنی عسکری تاریخ کی سب سے بڑی جوابی کارروائی کا آغاز کیا۔ چار مرحلوں میں دو سو سے زائد بیلسٹک اور کروز میزائل تہران سے نکل کر اسرائیلی شہروں پر آسمانی بجلی کی طرح گرے۔ ایک لمحے کو وہ منظر دنیا نے دیکھا جب تل ابیب کی آسمان چھوتی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں اور ہر وہ شخص جو برسوں سے فلسطینی خون کے دریا پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا، اس لمحے گم صم رہ گیا۔
اسرائیلی میڈیا جو ہمیشہ اپنی برتری کے گن گاتا ہے اس بار چار اسرائیلی ہلاکتوں اور ساٹھ سے زائد زخمیوں کی تصدیق پر ہی اکتفا کرتا نظر آیا کیونکہ اصلی نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا جسے وہ تسلیم کر سکے۔ حملے صرف جسمانی نہیں تھے یہ حملے اس غرور پر تھے جو اسرائیل نے اپنی ناقابلِ شکست ہونے کی جھوٹی داستانوں سے پال رکھا تھا۔اسرائیل جو ہمیشہ اپنی ٹیکنالوجی، سائبر وارفیئر، اور جدید ترین ایئر ڈیفنس سسٹمز پر فخر کرتا رہا ہے، اس بار ایران کے طوفانی حملوں کے سامنے بے بس نظر آیا۔ آئرن ڈوم، ایرو اور ڈیوڈ سلنگ جیسے سسٹمز جنہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا ایران کے بیلسٹک اور سپرسانک میزائلوں کے سامنے ایک کھوکھلا دعوی ثابت ہوئے۔ ایران نے نہ صرف اسرائیلی ایئر ڈیفنس کی تہیں چاک کیں بلکہ تل ابیب جیسے محفوظ سمجھے جانے والے شہر کو ہدف بنا کر دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ اب اسرائیلی بالا دستی محض ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ جو ملک دوسروں کی سرزمین پر قبضہ کر کے ٹیکنالوجی کے زعم میں خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا وہ چند گھنٹوں میں بے بسی کی تصویر بن گیا۔
ایران نے نہ صرف اپنے شہیدوں کا بدلہ لیا بلکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں وہ سبق سکھایا جسے وہ آنے والی دہائیوں تک نہ بھول سکے گا۔ یہ حملے صرف ہتھیاروں کی برتری نہیں بلکہ حکمتِ عملی، جذبے اور غیرتِ قومی کی فتح تھی۔ اسرائیلی فوج جو دنیا کی تربیت یافتہ اور جدید ترین افواج میں شمار ہوتی ہے ان میزائل حملوں کے بعد دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہو گئی۔ ایران نے عالمی منظرنامے پر یہ اعلان کر دیا کہ اگر تم ہماری سرزمین پر آئو گے تو ہم تمہارے دل میں گھس کر جواب دیں گے۔ یہ صرف جنگی ردعمل نہیں بلکہ مسلم دنیا کے لیے ایک پیغام بھی تھا کہ اگر اتحاد ہو، عزم ہو اور قربانی کا جذبہ ہو تو ظلم کی سب دیواریں گرائی جا سکتی ہیں۔
اگر ہم اسرائیل اور ایران کی عسکری قوت کا موازنہ کریں تو گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق اسرائیل دنیا میں 15ویں جبکہ ایران 16ویں نمبر پر ہے۔ بظاہر اسرائیل کا سالانہ دفاعی بجٹ 27 ارب ڈالر ہے جب کہ ایران صرف 10 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے مگر عسکری معرکے صرف اعداد و شمار سے نہیں جیتے جاتے۔ میدانِ جنگ میں جذبہ، عزم، قربانی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ایران کے پاس 6 لاکھ 10 ہزار فعال فوجی ہیں جن میں پاسدارانِ انقلاب کے 1 لاکھ 90 ہزار گارڈز بھی شامل ہیں جبکہ اسرائیل کی حاضر سروس فوج محض 1 لاکھ 70 ہزار پر مشتمل ہے۔ تاہم اسرائیل اپنی فضائیہ کو سب سے بڑی قوت سمجھتا ہے۔ 340 فائٹر جیٹ، جن میں ایف-35، ایف-16 اور ایف-15 جیسے جدید طیارے شامل ہیں اسرائیل کو فضائی برتری ضرور دیتے ہیں مگر ایران نے اپنی فضائی کمزوری کو میزائل پروگرام کے ذریعے نہ صرف پورا کیا بلکہ اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کر کے اسے عملی طور پر آزما بھی دیا۔
ایران کے پاس شہاب، قدر، ذوالفقار، سومار، عماد اور ہائپر سونک الفتح جیسے بیلسٹک اور کروز میزائل موجود ہیں جن کی رینج 300 کلومیٹر سے لے کر 2500 کلومیٹر تک ہے۔ یہی نہیں ایران کے ڈرونز نے اسرائیلی دفاعی نظام میں وہ خلا پیدا کیا ہے جسے دنیا کی کوئی آئرن ڈوم مکمل طور پر بند نہیں کر سکی۔ شہید 129 اور شہید 136 جیسے ڈرونز اسرائیلی رڈار سسٹم کو چکما دینے میں کامیاب رہے جبکہ اسرائیل کے ہیرون اور ہیروپ ڈرونز صرف روایتی ردعمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان 2152 کلومیٹر کا فاصلہ باوجود اس کے ایران نے گزشتہ برس بھی اسرائیل پر کامیاب حملے کیے تھے اور اب کی بار تو انہوں نے اپنا پیغام مکمل طور پر واضح کر دیا ہے۔ اسرائیلی دفاعی نظام چاہے تین سطحوں پر مشتمل ہو ۔ ایرو، ڈیوڈ سلنگ، اور آئرن ڈوم مگر ایران کے میزائلوں نے ان تمام پرتوں کو چیر کر رکھا دیا ہے۔
جہاں ایران کا فخر اس کی بیلسٹک طاقت ہے وہاں اسرائیل دنیا کی پانچ بڑی سائبر جنگی طاقتوں میں شامل ہے۔ اسرائیلی سائبر فورسز ڈرونز ہائی جیک کرنے، GPS جام کرنے اور دشمن کے مواصلاتی نظام کو ناکارہ بنانے میں مہارت رکھتی ہیں مگر ایران نے اس میدان میں بھی خاموشی سے اپنی موجودگی کا لوہا منوایا ہے۔ اگرچہ ابھی ایران سائبر صلاحیتوں میں اسرائیل سے پیچھے ہے مگر جنگ میں یکطرفہ صلاحیتیں ہمیشہ دیرپا ثابت نہیں ہوتیں۔
ایرانی بحریہ بھی اس جنگ میں کسی طور کمزور نہیں۔ ایران کے پاس 17 ٹیکنیکل آبدوزیں اور 68 جنگی بحری جہاز ہیں، جبکہ اسرائیل کے پاس پانچ آبدوزیں اور 49 بحری جہاز ہیں۔ سمندر میں بھی ایران اب اسرائیلی مفادات کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے خاص طور پر خلیج عمان اور بحیرہ احمر کے راستوں میں۔ان تمام حقائق کے بعد ایک بات بالکل عیاں ہے اسرائیل اب اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کے غرور کو سنگین ضرب لگی ہے۔ اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر جتنا ظلم وہ برسوں سے کرتا آیا ہے، وہ اب صرف کیمرے کی آنکھ سے رپورٹ نہیں ہوگا بلکہ میزائل کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔
تل ابیب کے ملبے تلے صرف اینٹیں نہیں گریں ایک پوری سوچ، ایک پوری برتری کا تصور، اور وہ سارا غرور دفن ہوا ہے جو اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت کے بل پر پالا تھا۔ ایران نے بتا دیا ہے کہ مظلوم اگر جاگ جائے تو اس کے قدموں کی دھمک سے سامراجی ایوان لرزنے لگتے ہیں۔اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ دنیا اسرائیل کی اصلیت کو سمجھے ۔ وہ ملک جو نسل کشی، قبضے اور مذہبی جنون پر قائم ہے اب زوال کی راہوں پر گامزن ہو چکا ہے۔ فلسطین کی صبح قریب ہے اور مسجد اقصی کی اذانیں ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کے ضمیر کو جگائیں گی۔کیونکہ اب ظلم کی رات ڈھل چکی ہے، اور باری اسرائیل کی تباہی کی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران نے تل ابیب کر دیا کے پاس

پڑھیں:

جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔

تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  •  حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین