ڈی آئی خان میں شہدائے ایران کی مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے ایس یو سی کے مرکزی رہنماء کا کہنا تھا کہ اس جنگ نے بالکل کربلا کے حق و باطل کے معرکہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ایک طرف یزیدیت کے پیروکار دوسری طرف حسینیت کے پیروکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ڈیرہ اسماعیل خان مرکزی امام بارگاہ حیدریہ میں اسرائیلی جارحیت و بربریت میں شہید ہونے والے ایران کے سائنسدان و جنرل شہدائے مقاومت و استقامت کے ایصال ثواب کے لیے مجلس ترحیم کا انعقاد کیا گیا۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ محمد رمضان توقیر، مولانا سید اسد رضا حسنی، مولانا عمران جوادی، مولانا تنویر عباس عسکری اور مولانا احسن ثقلین اصفہانی نے مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے شہدائے کو خراج تحسین پیش کیا۔ علامہ محمد رمضان توقیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ نے بالکل کربلا کے حق و باطل کے معرکہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ایک طرف یزیدیت کے پیروکار دوسری طرف حسینیت کے پیروکار ہیں، یزیدیت کے پیروکار نے فرزند حسین کو بیعت کرنے اور سر جھکانے پر مجبور کیا تو فرزند حسین نے اپنے دادا کی طرح انکار کرتے ہوئے مشن حسین پر عمل کرتے ہوئے ڈٹ گئے۔ شہداء کی قربانیاں دے کر ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کی راہ اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سر فراز و سر بلند رہے اور داد و تحسین کے حق دار ٹھہرے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری طرف یہود و ہنوز کے حصہ میں ہمیشہ ذلت و رسوائی اور راہ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس جنگ کو ہمیشہ کی طرح رات کے اندھیرے میں شروع کیا، عربوں نے ہمیشہ منفقانہ رویہ اپناتے ہوئے یا تو خاموش رہے یا اپنی عزتوں کو طائفوں کی طرح پیش کر کے یہودیوں کےلیے دلی تسکین اور عیاشی کے اسباب پیدا کئے۔ اس جنگ کو اسرائیل نے شروع کر کے احمقانہ اقدام کیا لیکن اب ایران نے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرکے اللہ کی نصرت و مدد سے کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر کرے گا، جنگ کے شروع ہوتے ہی کئی اعلیٰ اسرائیلی شخصیات چھپنے کے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں۔ علامہ محمد رمضان توقیر نے کہا کہ ان شاء اللہ بہت جلد اسرائیلی کی نابودی اور استعمار کی ناکامی اور ایران کی کامیابی اور فتح کے لئے جشن منائیں گے۔جشن کی ریلیاں اور جلسے جلوس کرینگے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رمضان توقیر کے پیروکار کرتے ہوئے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کا فطری اتحاد

علاقائی پیچیدگیوں اور سیاسی تغیرات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے تعاون کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کو نہ صرف ایک ہمسایہ ذمہ داری بلکہ علاقائی امن کے لیے ایک تزویراتی ضرورت سمجھتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، جو مشترکہ تاریخ اور جغرافیہ میں جڑا ہوا ہے۔ یہ قدرتی وابستگیاں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دیتی ہیں۔ قدیم ادوار میں افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے برصغیر تک تجارت کے لیے قدرتی گیٹ وے کے طور پر کام کرتا رہا۔ ان تجارتی راستوں نے ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تبادلوں کو ممکن بنایا، جس سے دونوں خطوں کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم ہوا۔ پاکستان آج بھی ان تاریخی تجارتی روابط کی بحالی کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان اور افغانستان معیشت، سلامتی اور سماجی روابط کے اعتبار سے تاریخی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک میں امن دوسرے کی سلامتی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، جس سے دونوں کی تقدیریں جڑی ہوئی ہیں۔ ایک مستحکم افغانستان سرحد پار جرائم، دہشت گردی اور مہاجرین کی آمد میں کمی کو یقینی بناتا ہے، جس سے پاکستان کی سیکورٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے پاکستان افغان قیادت پر مبنی امن عمل کا پرزور حامی رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں امن تجارت، علاقائی ربط اور سرحد پار تعاون کو فروغ دیتا ہے، جو افغانستان کے لیے فائدہ مند ہے۔ پاکستان کے تعمیراتی منصوبے اور تجارتی مواقع افغانستان کی علاقائی بحالی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی علاقائی پالیسی کا بنیادی مقصد ایک پرامن، محفوظ اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان ہے۔ عالمی مفادات کی عارضی نوعیت کے برخلاف، پاکستان کی حکمت عملی دیرپا اور علاقائی امن پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2,600کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک ہی مذہب (اسلام)اور ایک جیسے نسلی پس منظر کے لوگ آباد ہیں جیسے پشتون، تاجک، اور ہزارہ۔ ان قبائلی، نسلی اور خاندانی رشتوں نے ایک انوکھا انسانی ربط پیدا کیا ہے، جو پاکستان اور افغانستان کو صرف ہمسائے نہیں بلکہ باہم جڑی ہوئی معاشرتیں بناتا ہے۔ یہ سماجی ہم آہنگی مشکل وقت میں عوامی سفارت کاری کی بنیاد بن جاتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ ہر افغان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے کابل میں کون برسرِاقتدار ہو۔ پاکستان کی پالیسی کبھی بھی افغانستان مخالف نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ باہمی فائدے کی کوشش کی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان نے خیرسگالی اور احترام پر مبنی رویہ اپنایا ہے۔ بدقسمتی سے کئی افغان حکومتیں بھارت کے اثر میں رہی ہیں، جس نے پاکستان کے خلاف بداعتمادی کو ہوا دی۔ اس بھارتی اثر و رسوخ نے پاک،افغان تعلقات کی مکمل صلاحیت کو حاصل نہیں ہونے دیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ گفت و شنید کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے افغانستان کا امن، استحکام اور ترقی۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔ پاکستان کی بے مثال فراخدلی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور طویل ترین مہاجر میزبانی میں سے ایک ہے۔
15اگست 2021ء کے بعد جب دنیا کی اکثر ریاستیں نیٹو کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو قبول کرنے میں ناکام رہیں، پاکستان نے ایک بار پھر انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی اور مزید 10لاکھ قانونی/غیر قانونی مہاجرین کو پناہ دی۔ مغربی طاقتوں کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہو سکے، لیکن پاکستان نے عالمی ذمہ داری کو وقار اور ہمدردی کے ساتھ نبھایا۔ 12 صوبوں کے لئے45 ایمبولینسز فراہم کی گئیں۔ طبی کیمپس کے ذریعے 30,000 سے زائد مفت آنکھوں کی سرجریاں کی گئیں۔ پاکستان کی طبی خدمات نے ہزاروں افغانوں کی جانیں بچائیں۔۔ چمن،سپین بولدک اور پشاور،جلال آباد ریلوے منصوبوں کے لئے پاکستان کی طرف سے فزیبلٹی مکمل کی جا چکی ہے۔۔ ان منصوبوں کا مقصد تجارت اور نقل و حرکت کو بہتر بنا کر افغانستان کو خطے کی معیشت میں شامل کرنا ہے۔ پاک-افغان تعاون فورم کے تحت کل انسانی امداد کا تخمینہ 30 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرتی آفات میں 15,000 ٹن امداد فراہم کی گئی۔
پاکستان نے ہر حال میں امداد جاری رکھی، جب دنیا کی توجہ ہٹ گئی تو بھی پاکستان نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ قندھار کے لیے ٹی وی ٹرانسمیٹر، سیکیورٹی آلات اور کمپیوٹرز، کابل کے دیہات میں 15 دیپ ویل ہینڈ پمپ ، کابل چڑیا گھر اور دہ مزنگ پارک کی بحالی قابل ذکر ہیں۔ یہ خدمات عام شہری زندگی میں بہتری، ثقافتی ورثے کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں معاون ہیں۔ پاکستان کی دہائیوں پر محیط خدمات نے اسے افغانستان کا واحد قابلِ بھروسہ اور مستقل ساتھی بنایا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے مستحکم مستقبل کی خاطر ہمیشہ دست تعاون دراز کیا ہے۔ یہ رشتہ لین دین پر مبنی نہیں بلکہ برادرانہ، آزمودہ اور مشترکہ مفادات سے منسلک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کا فطری اتحاد
  • اسرائیل کو لگام نہ ڈالی گئی تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا‘حمزہ شہباز  
  • امن کا فروغ پاکستان کا ہدف،معاشی بحالی کا سفر شروع کر دیا،عطاء تارڑ
  • ایران حق پر ہے اور ہمیں ایران کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے، شیخ رشید
  • اسرائیل کو بھاگنے نہیں دیں گے، اختتام ہم لکھیں گے، ایرانی سپریم لیڈر
  • مسلم دنیا اسرائیل کیخلاف متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے، ایران ضرور بدلہ لے گا، علامہ مقصود علی ڈومکی
  • ایران پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کرتے ہیں، متحدہ علماء محاذ کا احتجاجی اجلاس
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں: علامہ ہشام الہٰی ظہیر