Express News:
2025-06-16@05:46:30 GMT

امریکا امن پسند یا جنگ پسند

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

ساری دنیا میں ایک بڑی ریاست اور طاقتور ہونے کی وجہ سے امریکا اس کرہ ارض پر اپنا حکم چلاتا رہا ہے اور ابھی تک چلا رہا ہے۔ سوویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد سے اس کی اس دیدہ دلیری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

اس سے پہلے اسے کہیں نہ کہیں سے کسی بھی مزاحمت کا ڈر لاحق رہتا تھا مگر 1991سے یہ ڈر اور خوف بھی ختم ہوکر رہ گیا جب سوویت یونین دوسری مد مقابل قوت کے طور پر اپنی یہ حیثیت کھو بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اس دنیا میں صرف ایک ہی بڑی قوت اور طاقت کا راج ہے ۔ وہ جہاں چاہتا ہے کسی نہ کسی بہانے سے کسی بھی ملک پر چڑھائی کر دیتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا بھی نہیں۔

 صدام حسین کو ختم کرنے کے لیے اس نے بڑی ہشیاری اور مکاری سے weapon of mass destruction  کا الزام لگا کر سارے عراق پر چڑھائی کردی اور اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ وہ اس وقت تک وہاں سے نہیں گیا جب تک اس نے صدر صدام حسین کو پھانسی پر لٹکا نہیں دیا۔ دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی نے امریکا کی مذمت نہیں کی۔ بعد ازاں مہلک ہتھیار رکھنے کا یہ الزام بھی غلط اور بے سروپا ثابت ہوگیا۔ امریکا نے اپنے اس رویے پر معذرت بھی نہیں کی۔

 اسی طرح اس نے نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرکیے جانے والے حملے کو بھی بنیاد بنا کر افغانستان میں فوجی مداخلت کردی اور اپنے ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کو بھی نیٹو معاہدے کے تحت اس جنگ میں شامل کر لیا۔ پاکستان کو یہ کہہ کر کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن اس جنگ میں زبردستی اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا اور افغانستان میں فوجی کمک کی ساری سہولتیں بھی حاصل کر لی۔ ہم دس سال تک بلاوجہ اس جنگ کا ایندھن بنتے رہے اور اپنی معاشی و اقتصادی تباہی کا سامان پیدا کرتے رہے۔

امریکا کے موجود ہ حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ دنیا میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے مطابق جہاں چاہتا ہے جنگ بند کرواتا ہے اور جہاں چاہتا ہے اسے مزید ہوا دیتا ہے۔

پاک بھارت جنگ میں سیز فائر کروانے کا کریڈٹ تو وہ ضرور لے رہا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس نے پہلے اس جنگ سے اپنی لاتعلقی بھی ظاہرکردی تھی اور یہاں تک کہہ دیا کہ جس جنگ میں امریکی مفادات شامل نہ ہوں، امریکا اس میں مداخلت نہیں کرتا، مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کا اس خطے میں ایک بہت ہی اہم اور اس کا ایک بہت بڑا دوست اور فریق پاکستان سے شکست کھانے لگا ہے تو اس نے فوراً سیز فائر کا حکم دیدیا ۔

اس جنگ کو رکے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس نے اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا ہے۔ بھارت چونکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے مسلسل گریزاں ہے لہٰذا امریکا کو بھی اب اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کا کام بھارت کو مکمل شکست سے بچانا تھا جو اس نے فوری طور پر ایسا کر بھی دیا۔ بھارت کو اس لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ امریکا نے سیز فائر کروا کے دراصل کس کی مدد کی ہے۔

ہمارے حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا میں امن کے پیامبرکے القابات سے نواز رہے رہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ اور ایران میں اسرائیل کی سفاکی کو نہ صرف سپورٹ کررہا ہے بلکہ اسے مزید فوجی امداد اور مہلک ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے جاری نسل کشی کو وہ کھلے عام جائز بھی قرار دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی صادر فرما رہا ہے، وہ اقوام متحدہ میں ہر اس قرارداد کو ویٹو کردیتا ہے جو اس جنگ کو روکنے کی خاطر پیش کی جاتی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے اس داعی کا یہ دوغلاپن اب کھل کر سامنے آچکا ہے۔

وہ سرعام یہ کہتا پھر رہا ہے کہ فلسطین کی ریاست اس علاقے میں اب نہیں بن سکتی ہے اگر بنانی ہے تو کسی اور اسلامی ملک کے اندر بنا لی جائے مگر موجودہ زمین پرنہیں۔ اس کا یہ جارحانہ رویہ کسی لحاظ سے امن پسندی کا نہیں ہے۔ اس کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اسرائیل کی ہمت اور دیدہ دلیری اور بھی بڑھ گئی ہے اور اس نے اپنے ارد گرد کے تمام ممالک پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

امریکا ایک طرف عرب ممالک سے اربوں اور کھربوں ڈالروں کے تجارتی معاہدے کررہا ہے اور دوسری طرف انھی کی پیٹھ پر چھرا بھی گھونپ رہا ہے، وہ ایک عظیم اسرائیلی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی پر تیزی سے عمل پیرا ہے ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک کو اُن کا دوست ثابت کر کے انھیں اپنا جنگی سامان بھی مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے ہمارے یہ مسلم ممالک اس کی ان چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی اس محاذ آرائی پر سوائے زبانی مذمت کے کسی ایک ملک نے بھی کچھ نہ کیا۔ غزہ تقریبا مکمل تباہ ہوچکا ہے مگر کسی کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیل کی دیدہ دلیری شام اور لبنان کے بعد اب ایران تک پہنچ گئی ہے اور شاید وہ دن دور نہیں جب یہ سفاکی ان کے اپنے یہاں بھی پہنچ جائے گی۔

اسرائیل اورامریکا کو معلوم ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں کسی اسلامی ملک کی جانب سے سخت رد عمل ہرگز نہیںآئے گا۔ شاید اسی لیے وہ اس خطے میں ایک چھوٹا سا ملک ہوتے ہوئے جو اطراف میں اسلامی ممالک کے بیچوں بیچ گھرا ہوا ہے، کسی بھی خوف اور ڈر کے بغیر جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے اپنے سارے خزانے کھول دیے ہیں، لٰہذا اسے مالی اعتبار سے کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیںہے۔

ایران اورامریکا کے بیچ نیوکلیئر ایشو پر مذاکرات ابھی ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اسرائیل نے بلاکسی عذر اور اشتعال کے ایران پر حملہ کردیا۔ یہ مذاکرات دراصل ایک ڈھونگ تھے ۔

ان مذاکرات سے امریکا کے مقاصد شاید پورے بھی نہیں ہونے تھے ۔ وہ پہلے بھی کئی بار ایران سے معاہدے کرچکا تھا اور ایران نے کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی مگر عراق پر حملہ آور ہونے کے لیے جس طرح مہلک ہتھیاروں کو جواز بنایا گیا اسی طرح اس بار ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو جواز بنایاگیا ہے۔ ایران کے بعد کس کی باری آسکتی ہے ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے۔

ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ امریکا میں کوئی بھی حکمراں ہو اس کی پالیسیاں صرف اور صرف اپنے ملک اور صیہونی ریاست کے مفادات سے ہم آہنگ ہوا کرتی ہے۔ وہ کسی اورکے ساتھ مخلص ہو ہی نہیںسکتا۔ یوکرین کو ہی دیکھ لیجیے۔ روس سے لڑنے کے لیے پہلے اس کی بھرپور حمایت کر کے اسے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور پھر لمحہ بھرمیں آنکھیں پھیر کر اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔

دوسری بار امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ امن کے داعی کے طور پر سامنے آئے تھے، دنیا نے صرف چھ ماہ میںان کی یہ امن پسندی دیکھ لی۔

وہ اس وقت فلسطین اور ایران میں براہ راست جنگ میں ملوث ہوچکے ہیں اورکھلے عام اسرائیل کی حمایت کر کے دونوں ممالک کو نیست و نابود کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔اُن کی امن پسندی سے متعلق دنیا کو اب کسی مخمصے میں نہیں رہنا چاہیے، وہ امن پسند نہیں بلکہ اپنے پیش روؤں کی طرح جنگجواور جنگ پسند ہیں۔ ایسی جنگ جو اُن کی اپنی زمین پر نہیں بلکہ کسی اور کی زمین پر لڑی جائے اور وہ آرام و سکون سے دوسروں کی بربادی کا نظارہ کرتے رہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی بھی نہیں چاہتا ہے دنیا میں ہے اور ا کے بعد کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، علی امین گنڈاپور

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔ اور امید کرتے ہیں صوبے کی بہتری کے لیے اچھا ہو گا۔ جبکہ اپوزیشن کے دوستوں کو کہتا ہوں اپنی تجاویز دیں۔ جنہیں ہم بجٹ میں شامل کریں گے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اور گورنر خیبرپختونخوا نے اسمبلی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے جائز حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں۔ تاہم ہم اپنے تمام فیصلوں میں آزاد ہیں۔ اور آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ سازش نہیں بلکہ کارکردگی دکھائیں۔ ضم اضلاع پر عائد ٹیکس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • مردان: 17 سال قبل پسند کی شادی کرنیوالے میاں بیوی قتل
  • بھارت میں انتہا پسند  ہندوؤں کی اسرائیل کے حق میں ریلی
  • بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کی اسرائیل کے حق میں ریلی
  • گلگت بلتستان کی رسیلی چیری ملک بھر کی پسند، کسانوں کو کیا مشکلات ہیں؟
  • تمام انصاف پسند اور امن پسند ممالک ایران کا ساتھ دیں، قاری حنیف جالندھری
  • گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، علی امین گنڈاپور
  • گورنر خیبرپختونخوا نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی، گنڈاپور
  • ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں،امریکہ
  • ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر حل کرانے کے بیان پر بھارتی سیخ پا‘ امریکی پرچم نذر آتش