امریکا امن پسند یا جنگ پسند
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
ساری دنیا میں ایک بڑی ریاست اور طاقتور ہونے کی وجہ سے امریکا اس کرہ ارض پر اپنا حکم چلاتا رہا ہے اور ابھی تک چلا رہا ہے۔ سوویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد سے اس کی اس دیدہ دلیری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
اس سے پہلے اسے کہیں نہ کہیں سے کسی بھی مزاحمت کا ڈر لاحق رہتا تھا مگر 1991سے یہ ڈر اور خوف بھی ختم ہوکر رہ گیا جب سوویت یونین دوسری مد مقابل قوت کے طور پر اپنی یہ حیثیت کھو بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اس دنیا میں صرف ایک ہی بڑی قوت اور طاقت کا راج ہے ۔ وہ جہاں چاہتا ہے کسی نہ کسی بہانے سے کسی بھی ملک پر چڑھائی کر دیتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا بھی نہیں۔
صدام حسین کو ختم کرنے کے لیے اس نے بڑی ہشیاری اور مکاری سے weapon of mass destruction کا الزام لگا کر سارے عراق پر چڑھائی کردی اور اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ وہ اس وقت تک وہاں سے نہیں گیا جب تک اس نے صدر صدام حسین کو پھانسی پر لٹکا نہیں دیا۔ دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی نے امریکا کی مذمت نہیں کی۔ بعد ازاں مہلک ہتھیار رکھنے کا یہ الزام بھی غلط اور بے سروپا ثابت ہوگیا۔ امریکا نے اپنے اس رویے پر معذرت بھی نہیں کی۔
اسی طرح اس نے نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرکیے جانے والے حملے کو بھی بنیاد بنا کر افغانستان میں فوجی مداخلت کردی اور اپنے ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کو بھی نیٹو معاہدے کے تحت اس جنگ میں شامل کر لیا۔ پاکستان کو یہ کہہ کر کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن اس جنگ میں زبردستی اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا اور افغانستان میں فوجی کمک کی ساری سہولتیں بھی حاصل کر لی۔ ہم دس سال تک بلاوجہ اس جنگ کا ایندھن بنتے رہے اور اپنی معاشی و اقتصادی تباہی کا سامان پیدا کرتے رہے۔
امریکا کے موجود ہ حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ دنیا میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے مطابق جہاں چاہتا ہے جنگ بند کرواتا ہے اور جہاں چاہتا ہے اسے مزید ہوا دیتا ہے۔
پاک بھارت جنگ میں سیز فائر کروانے کا کریڈٹ تو وہ ضرور لے رہا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس نے پہلے اس جنگ سے اپنی لاتعلقی بھی ظاہرکردی تھی اور یہاں تک کہہ دیا کہ جس جنگ میں امریکی مفادات شامل نہ ہوں، امریکا اس میں مداخلت نہیں کرتا، مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کا اس خطے میں ایک بہت ہی اہم اور اس کا ایک بہت بڑا دوست اور فریق پاکستان سے شکست کھانے لگا ہے تو اس نے فوراً سیز فائر کا حکم دیدیا ۔
اس جنگ کو رکے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس نے اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا ہے۔ بھارت چونکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے مسلسل گریزاں ہے لہٰذا امریکا کو بھی اب اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کا کام بھارت کو مکمل شکست سے بچانا تھا جو اس نے فوری طور پر ایسا کر بھی دیا۔ بھارت کو اس لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ امریکا نے سیز فائر کروا کے دراصل کس کی مدد کی ہے۔
ہمارے حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا میں امن کے پیامبرکے القابات سے نواز رہے رہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ اور ایران میں اسرائیل کی سفاکی کو نہ صرف سپورٹ کررہا ہے بلکہ اسے مزید فوجی امداد اور مہلک ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے جاری نسل کشی کو وہ کھلے عام جائز بھی قرار دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی صادر فرما رہا ہے، وہ اقوام متحدہ میں ہر اس قرارداد کو ویٹو کردیتا ہے جو اس جنگ کو روکنے کی خاطر پیش کی جاتی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے اس داعی کا یہ دوغلاپن اب کھل کر سامنے آچکا ہے۔
وہ سرعام یہ کہتا پھر رہا ہے کہ فلسطین کی ریاست اس علاقے میں اب نہیں بن سکتی ہے اگر بنانی ہے تو کسی اور اسلامی ملک کے اندر بنا لی جائے مگر موجودہ زمین پرنہیں۔ اس کا یہ جارحانہ رویہ کسی لحاظ سے امن پسندی کا نہیں ہے۔ اس کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اسرائیل کی ہمت اور دیدہ دلیری اور بھی بڑھ گئی ہے اور اس نے اپنے ارد گرد کے تمام ممالک پر حملے تیز کر دیے ہیں۔
امریکا ایک طرف عرب ممالک سے اربوں اور کھربوں ڈالروں کے تجارتی معاہدے کررہا ہے اور دوسری طرف انھی کی پیٹھ پر چھرا بھی گھونپ رہا ہے، وہ ایک عظیم اسرائیلی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی پر تیزی سے عمل پیرا ہے ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک کو اُن کا دوست ثابت کر کے انھیں اپنا جنگی سامان بھی مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے ہمارے یہ مسلم ممالک اس کی ان چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی اس محاذ آرائی پر سوائے زبانی مذمت کے کسی ایک ملک نے بھی کچھ نہ کیا۔ غزہ تقریبا مکمل تباہ ہوچکا ہے مگر کسی کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیل کی دیدہ دلیری شام اور لبنان کے بعد اب ایران تک پہنچ گئی ہے اور شاید وہ دن دور نہیں جب یہ سفاکی ان کے اپنے یہاں بھی پہنچ جائے گی۔
اسرائیل اورامریکا کو معلوم ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں کسی اسلامی ملک کی جانب سے سخت رد عمل ہرگز نہیںآئے گا۔ شاید اسی لیے وہ اس خطے میں ایک چھوٹا سا ملک ہوتے ہوئے جو اطراف میں اسلامی ممالک کے بیچوں بیچ گھرا ہوا ہے، کسی بھی خوف اور ڈر کے بغیر جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے اپنے سارے خزانے کھول دیے ہیں، لٰہذا اسے مالی اعتبار سے کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیںہے۔
ایران اورامریکا کے بیچ نیوکلیئر ایشو پر مذاکرات ابھی ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اسرائیل نے بلاکسی عذر اور اشتعال کے ایران پر حملہ کردیا۔ یہ مذاکرات دراصل ایک ڈھونگ تھے ۔
ان مذاکرات سے امریکا کے مقاصد شاید پورے بھی نہیں ہونے تھے ۔ وہ پہلے بھی کئی بار ایران سے معاہدے کرچکا تھا اور ایران نے کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی مگر عراق پر حملہ آور ہونے کے لیے جس طرح مہلک ہتھیاروں کو جواز بنایا گیا اسی طرح اس بار ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو جواز بنایاگیا ہے۔ ایران کے بعد کس کی باری آسکتی ہے ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے۔
ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ امریکا میں کوئی بھی حکمراں ہو اس کی پالیسیاں صرف اور صرف اپنے ملک اور صیہونی ریاست کے مفادات سے ہم آہنگ ہوا کرتی ہے۔ وہ کسی اورکے ساتھ مخلص ہو ہی نہیںسکتا۔ یوکرین کو ہی دیکھ لیجیے۔ روس سے لڑنے کے لیے پہلے اس کی بھرپور حمایت کر کے اسے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور پھر لمحہ بھرمیں آنکھیں پھیر کر اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔
دوسری بار امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ امن کے داعی کے طور پر سامنے آئے تھے، دنیا نے صرف چھ ماہ میںان کی یہ امن پسندی دیکھ لی۔
وہ اس وقت فلسطین اور ایران میں براہ راست جنگ میں ملوث ہوچکے ہیں اورکھلے عام اسرائیل کی حمایت کر کے دونوں ممالک کو نیست و نابود کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔اُن کی امن پسندی سے متعلق دنیا کو اب کسی مخمصے میں نہیں رہنا چاہیے، وہ امن پسند نہیں بلکہ اپنے پیش روؤں کی طرح جنگجواور جنگ پسند ہیں۔ ایسی جنگ جو اُن کی اپنی زمین پر نہیں بلکہ کسی اور کی زمین پر لڑی جائے اور وہ آرام و سکون سے دوسروں کی بربادی کا نظارہ کرتے رہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی بھی نہیں چاہتا ہے دنیا میں ہے اور ا کے بعد کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭