گزشتہ سوا مہینے میں میری تین پیشن گوئیاں مسلسل پوری ہوئی ہیں ۔ پہلی 6مئی کو انڈین حملہ۔ دوسری پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی تاریخ ۔تیسری حال ہی میں ایران پر اسرائیل کے حملے میں کہا گیا تھا کہ دنیا ایک ایسے 7سالہ دور میں داخل ہو رہی ہے جو 2032تک جاری رہے گا۔
جب یہ مکمل ہو گا تو ایسی تبدیلیاں آچکی ہونگی کہ دنیا پہچانی ہی نہیں جائے گی۔ اگرچہ اس فیز کا آغاز 7 جولائی سے ہو جائے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کے اثرات جون سے ہی شروع ہو جائیں ۔ اور ایسا ہی ہوا کہ 13جون کو صبح 6بجے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ۔ پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق اس طرح سے سنسنی دھماکا خیز خبر کا آغاز ہو گیا ۔
اس سے بھی پہلے کے کالم میں لکھ چکا تھا کہ ایران امریکا جوہری ڈیل ہو یا نہ ہو پورے مشرق وسطی کے خطے میں برصغیر تک ایسی بڑی تبدیلیاں آئیں گی جو اس پورے علاقے کا ناک نقشہ تبدیل کردیں گی ۔خاص طور پر سیاسی ، معاشی اور عسکری طور پر ۔اس تمام منصوبے پر عملدر آمد کا آغاز 2006 میں اسرائیل کے لبنان پر حملے سے ہوا جس کو امریکی بلیک وزیر خارجہ کنڈو لیزا رائس نے ری برتھ آف مڈل ایسٹ سے تعبیر کیا۔
اگر چہ کہ یہ حملہ ناکام ہوا ۔ لیکن اس پر کام مسلسل جاری رہا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کو عسکری اور خاص طور پر ٹیکنالوجیکل طور پر جدید سے جدید تر بنانے کا کام جاری رکھا ۔ 18سال تک یہ کام جاری رہا۔ یہاں تک کہ اسی ٹیکنالوجیکل برتری سے ایرانی اتحادیوں ، حماس، حزب اﷲ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ اب اسرائیل کے لیے میدان صاف تھا ۔ 2006 میں بھی یہی منصوبہ تھا کہ اسرائیل ، لبنان کو فتح کرکے شام تک پہنچ جائے اور وہاں سے سیدھا ایران پہنچ کر رجیم چینج منصوبہ مکمل کرے ۔ جیسا کہ یوکرائن میں امریکی CIA رجیم چینج سازش کرکے کٹھ پتلی یوکرائنی کامیڈین صدر کو لائی اور جسے سامراجی میڈیا نے جمہوریت کا محافظ قرار دیا ۔
بقول ہنگری کے وزیر اعظم کے اس کی وجہ یورپ اور امریکا کو 500سالہ سامراجی تسلط کا خاتمہ نظر آرہا تھا جس نے پوری دنیا کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے ۔ کیونکہ نئی ابھرتی ہوئی قوتیں روس اور چین ہیں ۔سابقہ امریکی صدر بائیڈن بلا وجہ راتوں رات افغانستان سے باہر نہیں نکلے جب انھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خبر دی کہ افغانستان میں 20سالہ امریکی جنگ کا فائدہ اٹھا کر روس اور چین عسکری اور معاشی طور پر ایک بڑی طاقت بن گئے ہیں۔یہ امریکی سامراج کے لیے ایک ہولناک خبر تھی۔ رجیم چینج منصوبوں کا امریکا بہت بڑا کھلاڑی ہے ۔
یہ اس کا محبوب مشغلہ ہے لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو قتل کرنا اس کے لیے ایک کھیل سے زیادہ نہیں ۔ حال ہی میں بقول ریٹائر ہونے والے ایک امریکی جنرل کے، کہ امریکا گزشتہ صدی میں ایک کروڑ سے زائد ریڈ انڈین کو بیدردی سے قتل کرچکا ہے ۔ اس ٹیکنالوجیکل جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادی پوری قوت سے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ایک طرف امریکا دوسری طرف اکیلا ایران جو پچھلے 45برسوں سے مسلسل اس سامراجی گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر رہا ہے ۔ ایران کے نہ جھکنے پر سامراجی میڈیا اور اس کے کارندے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ایران کو ہی دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ۔ مکر، فریب ، جھوٹ ، عیاری ، مکاری ، دھوکا ، ظلم امریکی سامراج کی سرشت میں شامل ہے ۔
اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملے کو ہی دیکھ لیں ٹرمپ مسلسل کہتے رہے کہ میں نے اسرائیل کو کہا ہے کہ خبردار ایران پر حملہ نہ کرنا بس ہماری ڈیل ہونے والی ہے جب کہ اندر خانے نیتن یاہو کو سپورٹ کرتے رہے ، ایران پر حملے کے لیے ۔ ایک امریکی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ ایران پر حملے کے لیے اسرائیل کو امریکا کی پوری حمایت حاصل ہے بلکہ اس معاملے میں امریکا گردن تک دھنسا ہوا ہے ۔
سابقہ امریکی صدر جوبائیڈن ہوں یا موجودہ یہ دونوں فلسطینیوں کو اس طرح سے مار رہے ہیں جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں اور دنیا بے بس ۔ ان کے سُرخ سفید چہرے دیکھیں ، ان کے چمکتے دمکتے لباس اور اس پر جمہوریت اور انسانیت کے بھاشن ۔ امریکی سنیٹر برنی سینڈر نے کہا کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر قانونی ہے ۔ یہ اسرائیل کی امریکا کو اپنی جنگ میں گھسیٹنے کی سازش ہے۔ اس سے دنیا بھر میں امریکا کی ساکھ متاثر ہو گئی ہے ۔
اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے اہم تاریخیں 16جون، 18جون اور خاص طور پر 22-21-20 جون ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے اور اس کے لیے
پڑھیں:
ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات
اسلام ٹائمز: 1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔ خصوصی رپورٹ
امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے میں متعدد عوامل کارفرما تھے، جن میں سب کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں انقلابِ اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکومت کی پالیسیوں سے تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے باوجود ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام خمینیؒ کی طرف سے ۱۰ آبان ۱۳۵۸ (نومبر 1979) کو قوم کے نام ایک اہم پیغام نشر ہوا، جو مسلمان طلبہ کے لیے ایک نئی انقلابی تحریک کا محرک بنا۔
امامؒ نے اس پیغام میں فرمایا کہ طلبہ، جامعات اور دینی علوم کے طلبہ پر لازم ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف وسعت دیں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس معزول اور جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے، اور اس بڑی سازش کی شدید مذمت کریں۔ یہ پیغام اُس وقت جاری ہوا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے امریکی صدر کارٹر کے مشیرِ قومی سلامتی زبیگنیو برژینسکی سے ملاقات کی تھی۔ انقلابی حلقوں نے اس ملاقات اور امامؒ کے پیغام کو ایک واضح اشارہ سمجھا کہ اب ایک فیصلہ کن انقلابی اقدام کیا جائے۔ ۱۰ آبان کے روز، جو عید قربان کا دن تھا، امامؒ کا یہ بیان امریکہ کے خلاف ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔
طلبہ نے اسے ایک اصولی بنیاد کے طور پر لیا اور فیصلہ کیا کہ امریکہ کے خلاف احتجاج کو عملی شکل دی جائے۔ ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے سامنے ایرانی عوام کی مظلومیت کو اجاگر کریں، خاص طور پر اُن بین الاقوامی صحافیوں کے ذریعے جو امریکی سفارتخانے میں موجود تھے۔ چنانچہ طلبہ نے امریکی سفارتخانے میں داخل ہو کر احتجاج کیا کہ امریکہ نے اُس مفرور شاہ کو اپنے ملک میں پناہ کیوں دی ہے اور اُسے ایران واپس کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہی عمل بعد میں تسخیرِ لانۂ جاسوسی (امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ) کے نام سے تاریخ میں ثبت ہوا، جو انقلابِ اسلامی کے بعد ایران کی داخلی و خارجی سیاست میں ایک اہم موڑ بن گیا۔
پس منظر:
1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔
امام خمینیؒ کا پیغام اور نیا موڑ
10 آبان 1358 (عید قربان) کے موقع پر امام خمینیؒ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا کہ یونیورسٹی و مدارسِ دینیہ کے طلبہ اپنی تمام تر قوت امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں صرف کریں، اور امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس مخلوع و جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے۔ یہ پیغام اُس وقت آیا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے الجزائر میں برژینسکی (امریکی مشیرِ قومی سلامتی) سے ملاقات کی، اور یہ ملاقات انقلابی حلقوں کے نزدیک "امریکی مفاہمت" کی علامت سمجھی گئی۔ یوں امامؒ کا پیغام طلبہ کے لیے ایک انقلابی اشارہ بن گیا۔
طلبہ کا فیصلہ اور منصوبہ بندی
امام کے پیغام کے بعد مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے دانشجویان پیرو خط امام (امام کی رہ لائن کے پیروکار طلبہ) کے نام سے ایک خفیہ اتحاد تشکیل دیا۔ ان طلبہ نے چند روزہ مشاورت اور خفیہ میٹنگز کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ شاہ کو واپس لانے کا مطالبہ عالمی سطح پر بلند کیا جائے اور ایران کے خلاف امریکی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اس تحریک کی قیادت میں تہران یونیورسٹی، شریف ٹیکنالوجی یونیورسٹی، اور چند مذہبی مدارس کے طلبہ شامل تھے۔
4 نومبر 1979، قبضے کا دن
صبح تقریباً 10 بجے سیکڑوں طلبہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے کے گرد جمع ہو کر نعرے لگائے: مرگ بر آمریکا (امریکہ مردہ باد)، کچھ دیر بعد وہ دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ امریکی عملے کو قابو میں کر لیا گیا اور سفارتخانے کی عمارت پر ایران کا پرچم لہرایا گیا۔ 52 امریکی سفارتکار 444 دن تک یرغمال رہے۔
امام خمینیؒ کا ردِعمل
امام خمینیؒ نے طلبہ کے اقدام کو فوراً انقلابِ دوم (دوسرا انقلاب) قرار دیا، فرمایا: یہ عمل اس انقلاب سے بھی عظیم تر ہے جو شاہ کے خلاف ہوا تھا۔ عبوری حکومت کے وزیراعظم مہدی بازرگان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ یوں عبوری حکومت کا دور ختم ہوا اور انقلابی اداروں نے عملاً ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔
نتائج اور اثرات:
1۔ ایران میں امریکی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ انقلابی قوتوں کو مضبوط عوامی جواز حاصل ہوا۔ ایران میں ضدِ استکبار (Anti-Imperialism) کی سوچ مرکزی نعرہ بن گئی۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر ایران امریکہ تعلقات منقطع ہو گئے۔ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اقوامِ متحدہ میں ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھا۔
3۔ نظریاتی سطح پر یہ تحریک ایک "عالمی انقلاب" کے نظریے کی بنیاد بنی۔ خطِ امام کے پیروکاروں نے اس کو عالمی استکبار کے خلاف نمونۂ عمل قرار دیا۔
ردِعمل
امریکی حکومت نے اس واقعے کو “Hostage Crisis” (یرغمال بحران) قرار دیا۔ صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے اسے امریکی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون پر حملہ کہا۔ ایران سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ ایران کے تمام اثاثے (تقریباً 8 بلین ڈالر) منجمد (Freeze) کر دیے گئے۔ 7 اپریل 1980 کو امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ یہ بحران کارٹر حکومت کے لیے سیاسی زوال کا باعث بنا۔ عوام نے اسے امریکہ کی "ذلت" کے طور پر دیکھا۔ یہی مسئلہ بعد میں رونالڈ ریگن کی فتح (1980 کے انتخابات) میں اہم عنصر ثابت ہوا۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کا ردِعمل: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوری طور پر ایران سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) نے بھی ایران کے خلاف فیصلہ سنایا کہ “سفارتی تحفظ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ تاہم ایران نے مؤقف اختیار کیا کہ: “یہ واقعہ عوامی انقلاب کا عمل تھا، نہ کہ سرکاری پالیسی کا۔ نتیجتاً، اقوامِ متحدہ ایران پر عملی دباؤ نہ ڈال سکی یہ انقلابی خودمختاری کی ایک مثال بن گئی۔
امریکی فوجی کارروائی کی ناکامی اور اثرات: اپریل 1980 میں آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) کے نام سے یرغمالیوں کو چھڑانے کی خفیہ فوجی کوشش کی گئی۔ 8 ہیلی کاپٹر اور 6 طیارے ایران کے صحرائے طبس میں اتارے گئے۔ ریت کے طوفان اور تکنیکی خرابی کے باعث آپریشن ناکام ہوا۔ 8 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ خدا نے شنهای طبس (طبس کی ریت) سے انقلاب کی مدد کی۔ یہ واقعہ ایرانی عوام کے لیے معجزاتی فتح کی علامت بن گیا۔
مغربی میڈیا اور رائے عامہ: مغربی میڈیا نے اسے “Iranian Hostage Crisis” کے عنوان سے روزانہ نشر کیا۔ امریکی ٹی وی چینلز (خصوصاً ABC News) نے خصوصی پروگرام “America Held Hostage” شروع کیا — جو بعد میں “Nightline” کے نام سے مشہور ہوا۔ مغربی عوام میں ایران مخالف جذبات بڑھے، لیکن تیسری دنیا اور مسلم ممالک میں ایران کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ بہت سے ماہرین نے لکھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب ایک مسلمان قوم نے مغرب کے سامنے مزاحمت کے ساتھ اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کیا۔
مسلم دنیا اور غیر جانب دار ممالک کا ردِعمل: کئی عرب ممالک (خصوصاً سعودی عرب اور مصر) نے اس اقدام کی مخالفت کی، جبکہ لیبیا، شام، یمن، اور فلسطینی تنظیمیں ایران کے حق میں بولیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ بھارت اور الجزائر نے ثالثی کی پیشکش کی۔ سوویت یونین (USSR) نے رسمی طور پر غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا لیکن پسِ پردہ ایران کے موقف کو مغرب کے خلاف ایک مفید دباؤ کے طور پر دیکھا۔ بحران کا اختتام
الجزائر معاہدہ (Algiers Accord): 20 جنوری 1981 کو، رونالڈ ریگن کے حلف برداری کے دن، ایران اور امریکہ کے درمیان الجزائر معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ ایران نے اس کے بدلے میں اپنے منجمد اثاثے واپس لینے کا حق حاصل کیا۔ یہ سمجھوتہ ایران کے اصولی مؤقف کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی سفارتخانے پر قبضہ ایک وقتی احتجاج نہیں بلکہ ایران کے فکری استقلال، سیاسی خوداعتمادی اور عالمی استعمار کے خلاف اعلانِ مزاحمت تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسلامی انقلاب عالمی سطح پر ایک نظریاتی چیلنج کے طور پر ابھرا جو آج بھی ایران کی خارجہ پالیسی اور فکری بیانیے کی بنیاد ہے۔
عالمی سطح پر طویل المدت اثرات
یہ واقعہ ایک ایسے عالمی دور کی ابتدا تھا، جس میں طاقت اور خودمختاری کے بیانیے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہو گئے۔ ایران نے فکر، ایمان، اور مزاحمت کو اپنی طاقت بنایا، جبکہ امریکہ نے طاقت کو اخلاقی برتری کا نام دے کر نیا عالمی نظم تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تسخیرِ لانۂ جاسوسی کے اثرات آج بھی واضح ہیں، ایران اپنی انقلابی شناخت پر قائم ہے، امریکہ اب بھی اسے نظمِ عالم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اور عالمِ اسلام کے کئی حصے اب بھی اس واقعے سے خودمختاری، مزاحمت، اور فکری بیداری کا استعارہ اخذ کرتے ہیں۔